Chishtiya Ribbat

TERMINOLOGY
(اصطلاحات)

کشف کا کمال

ادراک

مقام حیرت

تمکین اور تلوین

تجرید وتفرید

مبتدی ومنتہی

فیض

حضور وغیوب

اتصال واتحاد

عالم امر اور عالم خلق کیا ہے؟

تجلی کیاہے؟

سیر الی اللہ

سیر فی اللہ

نفسِ مطمئنہ

نفسِ راضیہ

نفسِ مرضیہ

نفسِ کاملہ

لطائفِ روحانیہ کیا ہیں؟

لطیفۂ نفس

لطیفۂ قلب

لطیفۂ روح

لطیفۂ سر

کشف و کرامت کا اِثبات

وحی اور وجدان میں فرق

لطیفۂ اخفیہ

لطیفۂ خفی

اطلاق وحی والہام صوفیہ

ہاجز

خاطر

الیقین کے درجات

علم لدنی

اِلہام اور علمِ لدنی میں فرق

دل اور قلب میں فرق

قلب

قلب کے اَحوال و کیفیات

نفس کے درجات

نفسِ اَمّارہ

نفسِ لوّامہ

نفسِ ملهَمہ

اسرار صوفیاء

ارشاد

صوفیاء کیا صطلاح’’مبہمات ‘‘ کی وضاحت

صوفیا ء کی اصطلاح ’’موھمات ‘‘کی وضاحت

صوفیا ء کی اصطلاح ’’ہفوات ‘‘کی وضاحت

صوفیاء کی اصطلاح ’’شطحات ‘‘کی وضاحت

اصطلاح ’’غلبہ حال‘‘ کی معرفت

اصطلاح ’’ صحو وسکر ‘‘ کی معرفت

اصطلاح ’’عام خاص اور مطلق و مقید‘‘ کی معرفت

رسوم تصوف کے حقائق کی معرفت

صوفیہ کے علوم وحقائق کی معرفت

دلائل صوفیہ کے درجات

اصطلاح’’ وحی الہٰی‘‘اور صوفیائے کرام

اسرار صوفیاء

ارشاد

صوفیاء کیا صطلاح’’مبہمات ‘‘ کی وضاحت

صوفیا ء کی اصطلاح ’’موھمات ‘‘کی وضاحت

صوفیا ء کی اصطلاح ’’ہفوات ‘‘کی وضاحت

صوفیاء کی اصطلاح ’’شطحات ‘‘کی وضاحت

اصطلاح ’’غلبہ حال‘‘ کی معرفت

اصطلاح ’’ صحو وسکر ‘‘ کی معرفت

اصطلاح ’’عام خاص اور مطلق و مقید‘‘ کی معرفت

رسوم تصوف کے حقائق کی معرفت

صوفیہ کے علوم وحقائق کی معرفت

دلائل صوفیہ کے درجات

اصطلاح’’ وحی الہٰی‘‘اور صوفیائے کرام

اطلاق وحی والہام صوفیہ

ہاجز

خاطر

الیقین کے درجات

علم لدنی

اِلہام اور علمِ لدنی میں فرق

دل اور قلب میں فرق

قلب

قلب کے اَحوال و کیفیات

نفس کے درجات

نفسِ اَمّارہ

نفسِ لوّامہ

نفسِ ملهَمہ

نفسِ مطمئنہ

نفسِ راضیہ

نفسِ مرضیہ

نفسِ کاملہ

لطائفِ روحانیہ کیا ہیں؟

لطیفۂ نفس

لطیفۂ قلب

لطیفۂ روح

لطیفۂ سر

کشف و کرامت کا اِثبات

وحی اور وجدان میں فرق

لطیفۂ اخفیہ

لطیفۂ خفی

کشف کا کمال

ادراک

مقام حیرت

تمکین اور تلوین

تجرید وتفرید

مبتدی ومنتہی

فیض

حضور وغیوب

اتصال واتحاد

عالم امر اور عالم خلق کیا ہے؟

تجلی کیاہے؟

سیر الی اللہ

سیر فی اللہ

اسرار صوفیاء

صوفیاء کرام کے درمیان بہت سارے ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں ،جن کا تعلق اسرار ورموز سے ہوتاہے،انسانوں نے شروع سے ہی اشاروں ،کنایوں میں بات کرنا سیکھا ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ  کے کلام میں بھی  اشارات وکنایات موجود ہیں ،ان رمو ز میں کلام کی اصل روح کو بیان کیاجاتاہے،صوفیاءفرماتے ہیں یہ سر بھی روح کی طرح ایک لطف چیز ہے،جو جسم کے ڈھانچے میں ہی رکھی گئی ہے،صوفیاء کرام کے اصولوں سے معلوم ہوتاہے کہ سر مشاہدہ کا محل ہے،جس طرح روح محبت کا محل اور دل معرفت کا محل ہے۔

صوفیائے کرام فرماتے ہیں سر اس راز کو کہتے ہیں جو بندے اور حق تعالیٰ کے درمیان محفوظ اور پوشیدہ رہتاہے،سر اس راز کو بھی کہتے ہیں جس پر تفکر وتدبر کے بغیر پہنچنا ممکن نہ ہو،عربوں میں ایک محاورہ بولا جاتاہے:’’صَدُورُ الْاَحْرَارِ قُبُوْرُ الْاَسْرَارِ‘‘ آزاد لوگوں کے سینے اسرار کی قبریں ہیں ۔   یہ بھی کہا گیا ہے کہ سر وہ ہے جسے حق تعالیٰ نے غائب رکھا ہو  اور اس پر صرف حق تعالیٰ ہی مطلع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سرالسر ہوتا ہے جس کا احساس سر بھی نہیں کر سکتا ہے۔ہرفن کے کچھ دقائق و حقائق ہوتے ہیں جن سے اس فن کے ماہرین آشنا ہوتے ہیں ، ان کی صحبت میں رہے بغیر دوسروں کو ان کی معرفت نہیں ہو پاتی اور صحبت کے بغیر اگر ان کو حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں تو اکثر غلط فہمی اور مقصود سے دوری کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ،تصوف کے دقائق وحقائق کی معرفت کے سلسلے میں تو صحبت اور بھی ضروری ہوتی ہے، کیوں کہ دوسرے فنون کے دقائق وحقائق عقل کا فیضان ہوتے ہیں ، جب کہ صوفیہ کے دقائق وحقائق روحانی فیوض اور ر بانی الہامات ہوتے ہیں جو مصفیٰ ومز کیٰ قلوب پر انعام الٰہی کے طور پر اتر تے ہیں۔

ارشاد

عام طور سے صوفیہ کرام و بزرگان دین کی تمام باتوں کو نقل کرتے وقت لکھا جا تا ہے : ”فلاں بزرگ ارشادفرماتے ہیں‘‘یہ تعبیر اگر چہ عام ہے اور ہدایت فرمانے، حکم دینے اور کہنے کے معانی کو شامل ہے، لیکن صوفیہ کے خاص محاورے اور اصطلاح میں قابل غور ہے کیوں کہ صوفیہ کے یہاں’’ارشاد ‘‘کا معنی’’ قول محکم‘‘ ہے، ان کے تمام اقوال ’’ارشاد‘‘ نہیں ہوا کرتے کیوں کہ ان کے اقوال پر بھی کلام الٰہی اور حدیث رسول کا رنگ ہوتا ہے ،قرآن کریم اور احادیث رسول میں تمام اقوال کا تعلق محکمات سے نہیں،بلکہ ان میں کچھ متشابہات بھی ہیں ،خودقرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:     

ھُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْہُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ۔[سورآل عمران:۷]

 اسی ذات کریم نے آپ پر کتاب اتاری، اس میں کچھ آیتیں محکم ہیں اور کچھ متشابہ ہے۔

 پھر متشابہ آیتیں بھی دوطرح کی ہوتی ہیں ایک تو وہ جن کا معنی سرے سے معلوم نہیں مثلا الم ۔ حم عسق وغیرہ جن کو آیات مقطعات بھی کہا جا تا ہے ، دوسرے وہ جن کا’’ ظاہری ،لغوی ،حسی‘‘ معنی تو معلوم ہوتا ہے لیکن وہ مراد لینا درست نہیں ہوتا ،مثلا وجہ اللہ، یداللہ وغیرہ۔ اسی طرح احادیث کریمہ میں بھی بعض کا تعلق متشابہات سے ہے اور اس کے حقیقی معانی ہمیں معلوم نہیں مثلاً’’اَلحَجْرُ الأَسْوَدُ يَمِيْنُ اللهِ( حجر اسوداللہ کا داہنا ہاتھ ہے)۔ اور بعض کا تعلق’’ مبھمات اور موھمات‘‘سے ہے جیسے اللہ کے رسولﷺنے فرمایا: إِنَّ الْجَنَّةَ لَاتَدْخُلُهَا عَجُوْزُ ( کوئی بوڑھی جنت میں نہیں جائے گی) ۔ یوں ہی صوفیہ کے اقوال وافعال بھی ’’محکمات اور متشابہات ‘‘پر مشتمل ہوتے ہیں، ’’محکمات‘‘  کو صوفیہ کی اصطلاح میں ’’ارشادات‘‘ کا نام دیا جا تا ہے جبکہ متشابہات کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اور سب کے جدا گا نہ نام ہیں ۔

۔

مبہمات

جس طرح قرآ ن وحدیث میں بعض الفاظ مبہم ہوتے ہیں ،اسی طرح صوفیا کے بھی بعض اقوال مبہم ہوتے ہیں ،صاحبو!مبہم کی جمع مبہمات آتی ہے ،اور  مبہمات  ان اقوال کو کہا جا تا ہے جس میں متعد د احتمالات ہوں ، جن کی وجہ سے ان میں ابہام پیدا ہو گیا ہو لیکن اس کے باوجود وہاں صحیح احتمال کو سمجھنا اور مراد لینا آسان ہو۔ جیسے اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان :إِنَّ الْجَنَّةَ لَاتَدْخُلُهَا عَجُوْزُ( کوئی بوڑھی جنت میں نہیں جائے گی ) اس میں ایک معنی جو ظاہر ہے وہ یہ کہ کوئی بوڑھی جنت میں نہیں جائے گی ،لیکن دوسرا معنی کہ کوئی بوڑھی ہونے کی حالت میں جنت میں نہیں جائے گی ، اس کو آسانی سے سمجھا اور مرادلیا جاسکتا ہے ۔اس ذیل میں بعض صوفیہ کے اس قول کو بھی رکھا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ سلوک طے کرتے ہوئے سالک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں تکلیف شرعی ساقط ہو جاتی ہے یہ جملہ ’’مبہمات مشائخ‘‘ کے قبیل سے ہے ، اس کا ایک معنی جو ظاہر ہے یہ ہے کہ سالک کے لیے ایسا کوئی مقام بھی ہے جہاں شرعی احکام کی پابندی ختم ہو جاتی ہے، لیکن یہ مردود ہے، اس کا ایک دوسرا معنی بھی ہے جو پہلے معنی کی طرح ظاہر تو نہیں لیکن آسانی سے مراد لیا جاسکتا ہے اور بلا تکلف سمجھا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’سالک دوران سلوک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں احکام شرعیہ کی ادائیگی میں پائی جانے والی کلفت و مشقت ختم ہو جاتی ہے اور اس مقام پر پہنچنے کے بعد سالک احکام شرعیہ کی بجا آوری میں ایمانی حلاوت اور عرفانی لذت پانے لگتا ہے‘‘۔

موھمات

وفیاء کے نزدیک موھمات  : ان اقوال کو کہا جا تا ہے جن میں متعد د احتمالات ہوں اور ان کے صحیح معنی اور صحیح احتمال تک آسانی سے ذہن نہ پہنچتا ہو بلکہ تفکر وتدبر کے بعد ہی اس کے صحیح معنی تک رسائی ہو سکتی ہو۔ جیسے کسی صوفی کا یہ قول کہ اس راہ میں ابلیس بھی دوست ہو جا تا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ قول بظاہر وحشت ناک ہے اور اس کی کوئی صحیح تاویل سمجھ میں نہیں آتی ،لیکن غور وفکر کے بعد اس کا ایک صحیح پہلو اس وقت سامنے آتا ہے جب ہم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو پڑھتے ہیں جس میں وہ خود بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان کو صدقے کے مال کی حفاظت پر متعین کیا تھا، چنانچہ ایک رات ایک شخص نظر آیا جو جلدی جلدی غلہ سمیٹ رہا تھا، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کو پکڑ لیا ، اس پر وہ شخص گر یہ وزاری کرنے لگا، اس کی یہ حالت دیکھ کر حضرت ابوہریرہ نے اس کو چھوڑ دیا، اگلے روز حضورﷺ کے دریافت کر نے پرانہوں نے سارا ماجرا کہہ سنا یا، حضور ﷺنے فرمایا وہ جھوٹا ہے وہ کل پھر آئے گا، چنانچہ وہ دوسری اور پھر تیسری شب بھی آیا اور ہر بار اس نے بہانے بنائے ، تیسری بار اس نے حضرت ابو ہریرہ سے کہا کہ اے ابو ہریرہ! مجھے چھوڑ دو میں تم کوایسی بات بتا تا ہوں جس سے تم کو فائدہ ہوگا اور پھر اس نے بتایا کہ اے ابوہریرہ سونے سے پہلے آیت الکرسی پڑھ لیا کرو ، حضرت ابو ہر پر صبح کو آئے اور اللہ کے رسول ﷺ سے سارا واقعہ سنا یا حضور ﷺنے فرمایا کہ وہ ابلیس تھا، اس نے سچ کہا، اگر چہ وہ بہت بڑا جھوٹا ہے۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی شیطان اپنے مقصد کی تحصیل کے لیے خیر کی جانب بھی رہنمائی کرتا ہے ۔اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے خیر کے راستے میں حضرت ابوہریرہ کی مدد کی ، اب اس تناظر میں اگر یہ کہا جائے کہ اس راہ میں ابلیس بھی دوست ہو جا تا ہے تو یہ قول غلط معلوم نہیں ہوتا ۔ ویسے اس قول کی دیگر درست تاویلات بھی موجود ہیں۔

ہفوات

صوفیا ء  کے نزدیک ہفوات :ان افعال کو کہا جا تا ہے،جو خلاف شرع معلوم ہوں اور بظاہر ان کی کوئی تاویل بھی سمجھ میں نہ آتی ہو، جیسے حضرت شبلی کا بیٹے کی موت پر داڑھی منڈوالینا۔اس بارے میں جب حضرت شبلی سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میری بیوی نے بیٹےکے غم میں سر کے بال منڈوا لیے، اس لیے میں نے بیوی کی موافقت میں داڑھی منڈوالی، ظاہر ہےحضرت شبلی جیسی شخصیت سے یہ متوقع نہیں ہے کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا ہو جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے۔جب لوگوں نے اصل حقیقت سے آگاہ کرنے پر اصرار کیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ کے رسولﷺکی ایک حدیث پہنچی ہے کہ جولوگ تذکیر کرتے ہیں اور خود غافل ہوتے ہیں تو وہ لعنت کے مستحق ہوتے ہیں اور مجھ کومعلوم تھا کہ بیٹے کی موت کے بعد لوگ میرے پاس تعزیت کےلیے آئیں گے اور یہ دنیا دار لوگ اناللہ وانا اليه رجعون کہ کر تذکیر کر یں گے جب کہ ان کے قلوب غیر اللہ میں مشغول ہوں گے اور اس طرح لعنت کے مستحق ہوں گے، اس لیے میں نے ایساعمل انجام دے دیا کہ لوگ مجھ سے نفرت کرنے لگیں اور میرے پاس تعزیت کے لیے نہ آئیں اور اس طرح میں نے ایک چھوٹی آفت اختیار کر کے لوگوں کو ایک بڑی آفت سے بچالیا۔ویسے بھی فقہ کا ایک مشہور قاعدہ ہے :’’ بندہ جب دو بلاؤں میں گرفتار ہو جائے تو ہلکی بلا کواختیار کر لے۔

شطحات

صوفیاء کے ہاں شطحات: ان اقوال کو کہتے ہیں جو خلاف شرع معلوم ہوتے ہیں اور جن میں کسی تاویل ِقریب و بعید کی گنجائش نظر نہیں آتی ، جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہ کی جانب یہ قول منسوب ہے کہ آپ نے فرمایا: اَنَا مُقِیْمُ الْقِيَامَةِ ( میں قیامت قائم کر نے والا ہوں ) اس طرح کے اقوال کے بارے میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے تحفہ اثناعشریہ میں ذکر کیا ہے کہ آپ نے حالت سکر میں اس طرح کے کلمات کہے ہیں ، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:صوفیہ کے متشابہات کے تعلق سے علما کے تین گروہ ہیں :

۔ پہلا گروہ وہ ہے جوان پرا انکار کرتا ہے، اور پھران کی بھی دو جماعتیں ہیں ، ایک وہ جماعت جو حقیقی طور سے ان صوفیہ پر انکار کرتی ہے اور ایسے اقوال وافعال کو جہل و جنون سے تعبیر کرتی ہے۔ یہ چیز اس جماعت کے لیے رحمت و برکت سے محرومی اور سوئے خاتمہ کا سبب بن سکتی ہے ۔ دوسری وہ جماعت جوسد ذرائع کی نیت سے انکار کرتی ہے اور فی نفسہ وہ ان صوفیہ کے موافق اور حامی ہوتی ہے۔

۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو نہایت غالی ہے ، یہ اس طرح کے تمام اقوال و افعال کو ظاہرا بھی درست اور صحیح سمجھتا ہے ۔

۔ تیسرا گروہ وہ ہے جو افراط وتفریلا سے پاک ہے، یہ صاحبان اعتدال ہیں ، ان کا موقف یہ ہے کہ ایسے اقوال وافعال در حقیقت درست ہیں مگر بظاہر قبیح ہیں اور بظاہر قبیح ہونے کی وجہ ان حضرات کا غلبہ حال اور اختیار کا کھود ینا ہے ۔لہٰذا ایسے اقوال وافعال کو فقط تسلیم کیا جائے ۔

چنانچہ صوفیہ کے اقوال وافعال میں صرف ارشادات ہی مکمل طور سے قابل عمل ہوتے ہیں، باقی رہے متشابہات تو وہ اپنی تمام قسموں کے ساتھ مؤول ہیں اور ان کے ظاہری معافی قابل عمل نہیں اور نہ ہی ان سے کسی چیز کے جواز و عدم جواز پر استدلال درست ہے۔اس لیے کتب تصوف کے مطالعے کے دوران یا ویسے بھی کبھی کسی صوفی کا کوئی عمل سامنے آئے تو یہ ضرورغور کیا جائے کہ وہ ظاہری طور پر بھی شریعت وطریقت کے مطابق ہے یا نہیں ، اگر ظاہری طور پر بھی معیار شریعت پر ہوتو اس کا تعلق ارشادات سے ہوگا ورنہ متشابہات سے اور متشابہات کے ظاہر کی تقلید نہیں کی جائے گی بلکہ اس کے صحیح معانی مراد لینے کی کوشش کی جائے گی،ان کے ہر قول وفعل کو محکمات و ارشادات میں شمار کرنا اور ان کے ظاہر کی تقلید کرنا غلط ہے ۔یہ بہت ہی اہم اصول ہے، اگر اس کو پیش نظر رکھا جائے تو صوفیہ کرام کے حوالے سے بہت ساری بدگمانیوں سے بچا جا سکتا ہے۔

غلبہ حال

چند بشری احوال ایسے بھی ہیں، جن میں شریعت نے بندوں کو معذور قرار دیا ہے، اور ان احوال میں جو اقوال وافعال سرزد ہوتے ہیں ان پر شریعت کی گرفت نہیں ہوتی ، انہی بشری احوال میں غلبہ حال  بھی ہے۔غلبہ حال کوئی بری چیز نہیں،بلکہ فی نفسہ محمود ہے ، یوں ہی ’’مغلوب الحال‘‘ شخص فی نفسہ خطا کارنہیں ،بلکہ معذور اور حسن نیت کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجر و ثواب کا مستحق ہوتا ہے ،کیوں کہ مغلوب انسان یا تو اللہ تعالیٰ کی محبت میں مغلوب ہوتاہے،یا پھر اللہ تعالیٰ کی وجہ سے کسی سے عدوات میں مغلوب ہوتاہے،اور قرآن و احادیث میں الحب للہ اور البغض لله پر مؤمنین کی تعریف کی گئی ہے، اللہ کے رسول ﷺکا ارشاد ہے :

 مَنْ أَحَبَّ ِللهِ، وَأَبْغَضَ ِللهِ، وَأَعْطَى ِللهِ، وَمَنَعَ ِللهِ، فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الإِيْمَانَ۔رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ۔

 [سنن ابوداؤ د، کتاب السنة  الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانه ،ج:۴، ص:۲۲۰،رقم:۴۶۸۱]

جس نے اللہ کے لیے محبت کی ،اللہ کے لیے عداوت کی ،اللہ کے لیے عطا کیا ، اللہ کے لیے منع کیا، اس نے ایمان مکمل کر لیا۔

اللہ کی محبت یا اللہ کے لیے شدید محبت یا اللہ کے لیے شدید نفرت بھی  ایمان کا حصہ ہے، ایسی شدت محبت اور نفرت کو بھی غلبہ حال کا نام دیا جا تا ہے، بسا اوقات غلبہ حال کے زیراثر کوئی شخص ایساعمل کرتا ہے جو شریعت کے عمومی منہج کے مطابق نہیں ہوتا ، ایسے شخص کو لعن طعن نہیں کیا جا سکتا ، ایسا شخص اپنے عمل میں معذور و ماجور ہوتا ہے ، اللہ تعالی ارشادفرماتا ہے :

قُلْ كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِيْلًا [سورۃ بنی اسرائیل:۸۴]

ہر انسان اپنے شاکلے کے مطابق عمل کرتا ہے تو آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ ہدایت پر ہے۔

مغلوبا نہ احوال کو ذکر کر نے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے دوسروں کے جذبوں کو مہمیز لگتی ہے، اور دین کے لیے اپنی کم ہمتی کا اندازہ ہوتا ہے۔

 بزرگان دین کے پر مشقت ریاضات و مجاہدات اوران کے مغلو با نہ اقوال و افعال کو جوبظاہر جادۂ شریعت سے خارج معلوم ہوتے ہیں، اگر  حدیث کی روشنی میں سمجھا جائے تو ان کےتعلق سے بہت سی الجھنوں اور سوئے ظن کا خاتمہ ہوسکتا ہے ، اسی طرح بزرگان دین سے غلبہ وجداور طرب ومستی کے عالم میں جو کلمات صادر ہوتے ہیں، ان کو اس حدیث کے پس منظر میں بھی سمجھنا چاہیے، جس میں آیا ہے کہ ایک بندہ غلبہ مسرت کی وجہ سے :اَللَّهُمَّ اَنْتَ رَبي وَاَنَا عَبْدُكَ (اے اللہ! تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں ۔ ) کہنے کے بجائے: اَللَّهُمَّ اَنْتَ عَبْدِي وَاَنَا رَبُّكَ (اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں ) کہہ بیٹھا،لیکن نبی کریمﷺنے اس کے اس جملے پر شرک و کفر کا کوئی فتوی صادر نہیں کیا، بلکہ صرف اس کو خطاء قرار دیتے ہوئے اس کا عذر بھی پیش کیا اور ارشادفرمایا :اَلخَطَاُ مِنْ شِدَّةِ الْفَرْحِ ( یہ شخص غلبہ مسرت میں خطا کر گیا۔

صحو وسکر

قرب نبوت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ سالک وصوفی ہمیشہ اپنے ہوش وحواس میں رہتا ہے اور خرد سے بے گانہ نہیں ہوتا،وہ جو کچھ سوچتا، کرتا اور بجالاتا ہے اس کا شعور وادراک رکھتاہے اور اسے اصطلاح صوفیہ میں ’’ محو ‘‘  کہا جا تا ہے، اس کے ذریعہ یا زیر اثر تمام اکابر صوفیہ ’’ارباب صحو ‘‘ تھے اور کبھی بھی دین وشریعت کے خلاف  نہ کوئی کلمہ زبان سے نکالتے تھے،اور  نہ ہی اعضاء سے کوئی کام خلاف شریعت کرتے تھے۔تمام صوفیہ نے صحو کا مقام یا حال ہی نہیں پایا بلکہ اسے صوفی وسالک کے لیے ضروری قرار دیا ۔

اس کے بر خلاف قرب ولایت کے طریقہ میں اللہ سے اتحاد و وصال کے خیال خاطر کے سبب صوفی وسالک پر ایک نشہ (سکر ) طاری ہوتا ہے، اس عالم سکر میں صوفی یا سالک اپنے ہوش وخرد سے بے گانہ ہو جا تا ہے اور وہ اپنی زبان سے بعض ایسے کلمات کہہ اٹھتا ہے جو نا روا ہوتے ہیں ان کو شطحات کہا جا تا ہے اور اکثر ’’اصحاب سکر ‘‘جیسے منصور حلاج نے’’ اناالحق‘‘ اور شیخ بسطامی نے ’’ سبحانی ما اعظم شانی ‘‘ جیسے کلمات کہے، وہ بسا اوقات اپنے وجد وسرستی میں ایسے اعمال وافعال کے بھی مرتکب ہوتے ہیں جو شریعت کی نگاہ میں ناروا ٹھہرتے ہیں ۔ سکر کے بعد صحو کی حالت میں بعض صوفیہ کرام  جب واپس آئے  تو ان کو اپنے سکر پر اور سکر کی حالت میں کہے گئے کلمات پر اور کر دہ اعمال پر ندامت ہوتی ہے اور وہ ان سے تو بہ کر تے ہیں۔ لیکن پھر سکر کا عالم طاری ہونے پر وہی کچھ کہتے اور کرتے ہیں جو ندامت وتوبہ سے قبل کرتے رہے تھے ۔ اصحاب سکر کا یہ المیہ ہے کہ وہ اس کے چکر سے بالکل نہیں نکل پاتے ۔

عام خاص اور مطلق و مقید

کسی بھی کلام کو سمجھنے میں عام و خاص(Common and particular) اور مطلق و مقید(General and Limited) کی فہم کا بڑا ا ہم کردار ہے،چنانچہ جس طرح فقہ ظاہر میں عام و خاص اور مطلق و مقید کو بڑا اہم مقام حاصل ہے، ویسے ہی صوفیہ کے کلام کی صحیح  تفہیم کے لیے بھی ،صوفیہ کے عام و خاص اور مطلق و مقید کی معرفت  بھی بہت ضروری ہے ۔دنیا کی کسی زبان میں بھی یہ طریقہ نہیں ہے کہ ہر لفظ ایک معنی اور ہر اسلوب ایک ہی مدعا کو ظاہر کررہاہو،بلکہ ایک ہی لفظ متعدد معانی کو ظاہر کررہاہوتاہے،چنانچہ یہ فیصلہ کہ کسی کلام میں یہ کس مفہوم کے لیے استعمال ہوئے ہیں، ہمیشہ   اِسی بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ جملے کی ترتیب، کلام کرنے والے کا رواج،   سیاق و سباق اور اِس نوعیت کے بعض دوسرے امور سے کیاجاتاہے۔مثلا فقہ ظاہر میں جب کسی خاص لفظ کو ذکر کیاجاتاہے تو اب  اس سے وہ ہی خاص مفہوم ہی مراد ہوتاہے،مثلا قرآن عظیم میں ہے:

فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ اَيَّامٍ۔[سورۃ مائدۃ:۸۹]

پھر جو شخص یہ نہ کر پائے تو پھر تین دن کے روزے رکھنے ہیں۔

اس آیت سے واضح  ہوتاہے کہ تین ہی دن کے روزے واجب ہیں ،نہ تین دن سے کم اور نہ ہی تین دن سے زیادہ ،تین کا لفظ اپنے معنی تین پر خاص ہے ۔ اسی طرح عموم پر دلالت کرنے والے الفاظ سے عام ہی مفہوم مراد ہوتاہے ،مثلاقرآن عظیم میں ہے:

كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِ۔

ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے ۔  یعنی انسان ہو ں یا جن ،یا فرشتہ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ کے  سوا ہر زندہ کو موت آنی ہے اور ہر چیز فانی ہے ۔

 اسی طرح  بسا اوقات صوفیہ کی کوئی بات لفظ عام میں ہونے کے باوجود و ہ مخصوص  ہوتی ہے ،لیکن اسے عام سمجھ لیا جا تا ہے اور پھر لوگ غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں ،لیکن جولوگ ’’علم تصوف ‘‘سے تعلق رکھنے والے ہیں ،وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کون سے مسائل خاص ہیں اور کون سے عام ، یہی معاملہ مطلق و مقید کا بھی ہے کہ فقہ کی طرح تصوف میں بھی مطلق (General )ہمیشہ  مطلق نہیں ہوتا، بلکہ بسا اوقات مقید بھی  ہوتا ہے۔ صوفیہ کی اصطلاح میں کبھی’’ بت ‘‘سے مراد ’’مرشد ‘‘لیا جاتاہے اور ظاہر ہے کہ یہ استعاراتی معنی ہے، کیوں کہ بت اور مرشد دونوں ہی ’’محبوبیت ‘‘میں شریک ہیں، بت کافروں کا محبوب ہے اور مرشد مریدصادق کا۔اور جیسے فنا و بقاء، اتصال وانفصال کے الفاظ صوفیہ کے یہاں اپنے عموم کے ساتھ بولے جاتےہیں ،لیکن ان کی مراد عام نہیں ہوتی ،بلکہ ان کی مراد خاص ہوتی ہے جوشرعی طور پر صحیح ہوتی ہے۔

اسی طرح صوفیہ کے یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ دو پیروالا کامیاب نہیں ہوتا یا دو پیر سے بیعت درست نہیں ، یہاں لفظ تو مطلق بولا گیا ہے ،لیکن مراد مقید ہے ، اور مفہوم یہ ہے کہ دوسرے شیخ سے بیت ہونے والا اس صورت میں کا میاب نہیں ہوتا جب کہ اس کا پہلا شیخ زندہ ہو اور اس سے فیض اٹھانا بھی ممکن ہو، لیکن اگر شیخ سے فیض اٹھا نا ظاہری طور پرممکن نہ ہو کیوں کہ وہ وفات پا چکا ہے یا دور ہے اور وہاں پہنچناممکن نہیں یا پہنچنا دشوار ہے تو دوسرے شیخ سے بیعت درست ہے اور ایسامر یدضرور کامیاب ہوگا ۔صوفیہ کے یہاں پیرارادت کے ساتھ پیرتر بیت ، پیر صحبت ، پیر تبرک ، پیر خلافت وغیرہ کا ذکر اس حقیقت کومزید واضح اور موکد کرتا ہے۔ اس لیے مطالعہ تصوف کے وقت اس اصول کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

رسوم تصوف کے حقائق

جس طرح فقہاے ظاہر بہت سے نئے اعمال کو شریعت سے متصادم نہ ہونے، بلکہ مقاصد شریعت کے حصول  میں معاون ہونے کی وجہ سے بدعت حسنہ کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں ، اسی طرح صوفیہ بھی مقاصد طریقت  کے حصول میں معاون ہونے اور شریعت کے مخالف نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے نئے اعمال ورسوم کو بدعت حسنہ یا سنت حسنہ کے خانے میں رکھتے ہیں ،اس طرح کے اعمال ہر زمانے میں ان صوفیہ کے اعلیٰ مقاصد سے بے خبر لوگوں کے یہاں بحث و جدال کا موضوع بنے رہے، اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ فقہائے ظاہر کے نزدیک جو اعمال بدعت حسنہ ہیں وہ خود بھی اختلاف آرا ءکے شکار ر ہے ہیں ، جب کہ ان کے مقاصد تک رسائی آسان ہے ۔فقہائے باطن کے پیش نظر رہنے والے مصالح کا فہم ،فقہائے ظاہر کے مصالح کے فہم  سے مشکل ہے،اس لیے صوفیہ کے یہاں پائی جانے والی کسی رسم پر اعتراض وانکار میں جلدی کرنے کے بجائے ان کے حقائق تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، کیوں کہ جب عام مومنین کے افعال پر بد گمانی حرام ہے تو جن کو مقر بان الٰہی کے زمرے میں شامل سمجھا جا تا ہواور جن کے راستے کی پیروی کا حکم دیا گیا ہو،ان سے بدگمانی تو اور زیادہ قبیح ہوگی۔ مثلا صوفیہ متقدمین کے مراسم میں ایک رسم ’’مقراض رانی‘‘ یا ’’موتراشی‘‘ ہے ۔ یہ بظاہر ایک لغو عمل معلوم ہوتا ہے ،لیکن صوفیہ کے یہاں یہ ظاہری عمل ایک بڑے باطنی حقیقت کا اشاریہ ہے ۔ ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی شیخ کے ہاتھ پر بیعت کر کے میدان سلوک اور قرب ربانی کی راہ میں قدم رکھتا ہے تو شیخ ،بیعت کے بعد اس کی مونچھوں کے اور سر کے چند بال تراش دیتا ہے ۔ بال چوں کہ زینت کا حصہ ہے اور اس میں ایک قسم کا تکبر بھی پوشیدہ ہے، اب مقراض رانی یا موتراشی سے یہ اشارہ ہے کہ اب یہ شخص تکبر کی راہ ترک کر کے عاجزی کی راہ اختیار کر چکا ہے، موتراشی سےایک اشارہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جیسے وہ جانور جس کو حج کے موقع پر قربانی کے لیے خاص کیا جا تا ہے یا ویسے بھی قربانی کے لیے خاص کیا جا تا ہے، اس میں کوئی نہ کوئی نشانی بنادی جاتی ہے ، جس سے یہ معلوم ہو جا تا ہے کہ یہ قربانی کا جانور ہے، اسی طرح بیعت کے بعد مرید کی موتراشی کر کے، شیخ ، اشارہ دیتا ہے کہ یہ وہ بندہ ہے جس نے اپنے نفس کو قرب ربانی کے لیے مجاہدے کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھانے کے لیے تیار کر لیا ہے ۔اسی طرح اور دوسرے صوفیانہ رسوم میں ایسے اعلیٰ باطنی وعرفانی معانی پوشیدہ ہوتے ہیں ، جن کے فہم کے بغیر صوفیہ کی رسموں کی اہمیت کو سمجھنا دشوار ہے اور یہ معرفت صرف مختلف شہروں اور ملکوں کے عرف کے سمجھنےاور مشائخ صوفیہ کی صحبت سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ مراسم تصوف کے حقائق کی معرفت کے بعد بھی اگر ہمارا دل مطمئن نہ ہو تو ہمیں ایسے اقوال و اعمال کو فقہائے ظاہر کے اجتہادات کی طرح سمجھ کر چھوڑ دینا چاہیے، اورفسق و گمراہی  کی راہ اختیار نہیں کرنی چاہیے ۔ بالفرض صوفیہ اگر اپنی اس نکتہ آفرینی میں خطا پر بھی ہوں ، تب بھی حد ادب لازم ہے، کیوں کہ اگر فقہائے ظاہر اجتہادی خطاء کے سبب گمراہ نہیں ہوتے تو فقہائے باطن اجتہادی خطاءکے سبب کیوں کر گمراہ ہو سکتے ہیں۔

صوفیہ کے علوم وحقائق

ہرفن کے کچھ حقائق(Facts) ہوتے ہیں جن سے اس فن کے ماہرین آشنا ہوتے ہیں ، ان کی صحبت میں رہے بغیر دوسروں کو ان کی معرفت نہیں ہو پاتی اور صحبت کے بغیر اگر ان کو حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں تو اکثر غلط فہمی اور مقصود سے دوری کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ،تصوف کے حقائق کی معرفت کے سلسلے میں تو صحبت اور بھی ضروری ہوتی ہے، کیوں کہ دوسرے فنون کے حقائق ،عقل کا فیضان ہوتے ہیں ، جب کہ صوفیہ کے حقائق روحانی فیوض اور ر بانی الہامات ہوتے ہیں جو مصفیٰ ومز کیٰ قلوب پر انعام الٰہی کے طور پر اتر تے ہیں ، چوں  کہ قرب الٰہی کی  نہ انتہا ہے ، نہ قلوب کے احوال یکساں ہوتے ہیں ،اس لیے یہ دقائق وحقائق گونا گوں اور نوع بنوع ہوتے ہیں ، اب ایسے میں ان دقائق کی معرفت اور زیادہ مشکل ہو جاتی ہے ۔ جولوگ اس حقیقت سے آشنا نہیں ہوتے وہ بسا اوقات ان کا سرے سے انکار کر دیتے ہیں یا پھر اپنے وضع کردہ محد ود عقلی معیارات پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے ان اصولوں کے مطابق درست نہ ہونے کی صورت میں وہ ان علوم وحقائق کا ہی سرے سے انکار کر دیتے ہیں ۔

 یہ غلطی صحبت صوفیہ سے محرومی کے سبب پیدا ہوتی ہے، اس لیے صوفیہ کے احوال ،طریقت و حقیقت سے تعلق رکھنے والے مسائل اور علوم و معارف اگر ہماری سمجھ میں نہ آئیں تو ہمیں اپنی کم عقلی بلکہ روحانی زوال کو موردالزام ٹھہرانا چاہیے، جس کی وجہ سے ہم ان اعلیٰ ربانی و روحانی حقائق کے فہم سے عاجز ہیں اور ان کو سمجھنے کے لیے کسی مرد کامل کی صحبت اختیار کرنی چاہیے،کیوں کہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک ان کو چکھا نہ جائے تو ان سے آشنائی نہیں ہو پاتی ۔مثلا صوفیہ کو حاصل ہونے والے کشفی اور لد نی علوم اور اعلیٰ علوم و احوال جن کا تذکر ہ کتب صوفیہ میں ملتا ہے جیسے محبت ، اس کے درجات اور اس کے اثرات، خوف وخشیت اور اس کے در جات واثرات وغیرہ۔ یہ سب ایسے معارف ہیں جن کی حقیقت تک رسائی کے لیے ہمیں یا توخود میدان سلوک میں قدم رکھنا ہوگا یا پھر مشائخ صوفیہ اور اہل دل کی صحبت اختیار کرنی ہوگی ۔

دلائل صوفیہ کے درجات

کسی بھی موقف کو ثابت کرنے کے لیے عام علمائے دین کی طرح صوفیہ بھی قرآن وسنت اور اجماع سے تمام  اجتہادی طریقوں  کی رعایت کرتے ہوئے استدلال(Argument) کرتے ہیں ، یوں ہی وہ فقہا کے طرز پر قیاس بھی کرتے ہیں، کہیں وہ استحسان (Appreciation)اور مصالح مرسلہ(Ingredients) کا بھی سہارا لیتے ہیں اور کہیں وہ کشف کا بھی استعمال کرتے ہیں ، اور اس میں ان کو کوئی باک نہیں ہوتا ،کیوں کہ وہ کشف جوقرآن وسنت اور دین کی کسوٹی پر کھڑا اترتا ہے وہ ان کے لیے ایسے ہی دلیل کا درجہ رکھتا ہے جیسے فقہا کے لیے قیاس ، اور جس طرح قیاس، صاحب قیاس اور ان کے متبعین کے لیے دلیل ہوا کرتا ہے پوری دنیا کے لیے نہیں ، یوں ہی کشف بھی صاحبان کشف اور ان کے متبعین  کے لیے دلیل ہوتا ہے، سارے جہاں  کے لیے نہیں، اور نہ وہ اپنے کشف پر عمل کے لیے دوسروں کو پابند بناتے ہیں ، ویسے بھی قیاس ثمر عقل ہے اور کشف ثمر ہ روح اور روح بہ ہرحال عقل سے اعلیٰ ہے، لہٰذا اس کے ثمرات بھی عقل کے ثمرات سے اعلیٰ ہوں گے ،ہاں یہ ضرور ہے کہ دونوں جگہ التباس کا امکان موجود ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ عقل پرست (Rationalists ) قیاس کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ اصحاب حال (Spiritualists) کشف کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں ،صوفیہ کے اس منہج سے نا آشنائی کی بنا پر بھی بہت سے لوگ ان پر اعتراض کرتے ہیں اور غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

یوں ہی صوفیہ اپنی کتابوں میں استدلال (Argument) کے طور پر نہیں بلکہ تحریر وتوضیح کے طور پر بعض روایات اور واقعات ذکر کرتے ہیں اور ان کو ذکر کرتے وقت ان کے مختلف الفاظ ہوتے ہیں مثلاً ” حکایت ہے کہ ..‘’ منقول ہے کہ ..‘ خبروں میں آیا ہے ..‘’ کہا گیا ہے ..‘ وغیرہ ،اس طرح کے الفاظ کے بعد وہ جو روایتیں اور واقعات ذکر کرتے ہیں ان کے حوالے سے ان کا یہ دعوی نہیں ہوتا کہ وہ سچے ہیں یا جھوٹے ، بلکہ وہ محض قصے ہو سکتے ہیں جن کا خارج میں سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہواور بطورمثل ومثال ہو سکتے ہیں ،ان واقعات سے ان کا مقصودکسی امر غیر ثابت کا اثبات یا کسی نہی کی حرمت پر استدلال نہیں ہوتا ، صوفیہ احکام کے کسی بھی درجے میں بطور استدلال اس قسم کے واقعات کو پیش نہیں کرتے ،بلکہ وہ ان واقعات کو احکام شریعت وطریقت میں سے کسی بھی ثابت شدہ امر کی مزید تفہیم وتوضیح یا ترغیب و ترہیب کے لیے ذکر کرتے ہیں یا پھران واقعات و روایات و امثال میں کوئی لطیف بات ہوتی ہے جو سالک کے کسی حال وواقعہ کے مناسب یا اس کی شرح کرنے والی ہوسکتی ہے یا ان میں کوئی ایسا اشارہ ہوتا ہے جوراہ سلوک میں مہمیز کرنے والا ہوتا ہے، اس لیے ان کو ذکر کرتے ہیں ۔ بعد میں رسم پرست لوگ ان روایات و واقعات کو قرآن وحدیث کی طرح محکم سمجھ کران سے احکام میں استدلال شروع کر دیتے ہیں اور اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی گم راہی کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ یوں ہی جولوگ صوفیہ کے منہج(Method) سے ناواقف ہوتے ہیں وہ لوگ اس طرح کی روایات کو دیکھ کر چیں بجبیں ہوجاتے ہیں اور ان پر انکار شروع کر دیتے ہیں۔

 صوفیہ کی کتابوں میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ نفس و شیطان کی مخالفت اور حکم ربانی کی اطاعت وفرماں برداری کے سلسلے میں قرآن واحادیث صحیحہ سے استدلال کے علاوہ بعض ایسے واقعات بھی ذکر کر دیتے ہیں جن میں سالک کے لیے کوئی نکتہ تو موجود ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس میں کوئی ایسا پہلو بھی ہوتا ہے جس میں کوئی شرعی نقص ہوتا ہے لیکن وہ نفس و شیطان کی مخالفت میں ایسے مغلوب و مدہوش ہوتے ہیں کہ اس میں موجود شرعی نقص سے غلبہ حال میں غافل ہوکر اس میں موجود نکتے کو پانے کے لیے تیزی سے بڑھتے ہیں ۔اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ اس میں واقع شرعی نقص میں گرفتار ہیں ،بلکہ اس وقت ان کی مثال اس فرماں بردار غلام کی ہوتی ہے جو اپنے آقا کی خدمت میں ہمہ وقت کمر بستہ اور اس کے حکم پر سبقت کرنے والا ہو اور اس کا آقا اس کو ایسی جگہ جا کر کسی چیز کو لانے کا حکم دے جہاں قدم پھسل جاتے ہوں ،لیکن وہ اپنی چابک دستی کی وجہ سے بغیر کسی لغزش کے اس کام کو انجام دے دے اور دوسرے غلام کے قدم وہاں پر پھسل جائیں ۔ بالکل اسی طرح وہ صوفی جو اس طرح کے واقعات میں موجودنکات کی طرف لپکتا ہے، وہ تو اپنا مقصود حاصل کر لیتا ہے اور تیز رفتارسالکین بھی اپنی مراد حاصل کر لیتے ہیں ،لیکن ناقصین پھسل جاتے ہیں۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے جسے صوفیہ کی کتابوں کے مطالعہ اور ان سے استفادہ کے وقت لازمی طور پر پیش نظر رکھنا چاہیے۔

اطلاق’’ وحی الہٰی‘‘اور صوفیائے کرام

دین و شریعت کا اصل ماخذ(Source) وحی الٰہی ہے جو رسول آخر الزماں ﷺ پر اور دوسرے انبیاے کرام پر دو صورتوں میں اتری تھی : ایک کتاب کی صورت میں، جو وحی کے فرشتہ حضرت جبرئیل کے ذریعہ لفظ و معنی دونوں کے ساتھ قلب نبوی پر نازل ہوتی تھی ۔ دوسری حدیث یا وحی خفی کی صورت میں ، جس کے معانی کا القاءمختلف طریقوں سے کیا جا تا تھا جن میں الہام ، رویاء صالحہ[ سچے خواب] ،کشف وشہود اور فرشتہ کے ذریعہ تنزیل وغیرہ شامل تھے۔ اس وحی مخفی میں بسا اوقات الفاظ زبان رسالت مآب ﷺ کے ہوتے تھے ، اورکبھی کبھی الفاظ بھی اللہ تعالی کےہوتے تھے جیسے وحی حدیث قدسی وغیرہ مگر ان کا ضبط ویقین زبان نبوی ہی فرماتی تھی ۔رسول اکرم ﷺ پر اتر نے والی وحی الٰہی خواہ جلی ہو یعنی قرآن و کتاب یا وحی خفی ہو یعنی حدیث وسنت دونوں یقینی اور حتمی ذرائع علم ہیں۔ ان سے پکا علم ملتا تھا اوراس کے اندر کسی قسم کے شک وشبہ یا غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ وحی الٰہی کی اس یقینی حیثیت کا مشاہدہ بسا اوقات صاحب وحی یعنی رسول اکرم ﷺ کے علاوہ دوسروں کو بھی ہوتا تھا اور ان میں صحابہ کرام یعنی اہل ایمان ویقین کے ساتھ ساتھ معاصرین عہد یعنی مشرکین وکفار دونوں شامل تھے اور دونوں اسے تسلیم بھی کرتے تھے ،یہ بات دوسری تھی کہ اہل کفر وشرک اور صاحبان نفاق ان کواپنی نادانی ، ضد ، عداوت اور سرکشی سے بر ملانہیں مانتے تھے ۔تمام صوفیہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان کا کشف والہام انفرادی ہوتا ہے ،یقینی نہیں، ایک صوفی کا الہام وکشف ایک ہی چیز کے بارے میں دوسرے صوفی کے کشف والہام سے مختلف ہوتا ہے اور مختلف ہو سکتا ہے ۔ ان کے کشف والہام میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوسکتا۔ وہ خالص ہر شخص یاصوفی کا ذاتی اور شخصی روحانی تجر بہ ہوتا ہے اور سب سے بڑی بات کہ صوفیہ کرام کا الہام و کشف یقینی ذریعہ علم نہیں ہے ،کیوں کہ وہ صرف وجدان پر مبنی ہوتا ہے اور اس کے لیے کسی خارجی یا بیرونی شہادت ،سنداور استحکام کا پشتہ نہیں لگا ہوتا جیسا کہ وحی الٰہی میں ہوتا ہے۔صوفی الہام وکشف کی غیر یقینی یا غیر حتمی صورت پر اتفاق کے بعد صوفیہ کے اندر دوطبقات فکر ملتے ہیں۔ ایک فکر یہ ہے کہ صوفی الہام وکشف لازمی طور سے صحیح نہیں ہوتا اس میں خطا کا امکان ہے جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی وغیرہ کا خیال ہے۔ دوسری فکر یہ ہے کہ صوفی الہام و کشف اپنی ذات میں تو بالکل صحیح ہوتا ہے لیکن اس کی تعبیر میں غلطی کا امکان رہتا ہے اور یہ خیال حضرت شاہ ولی اللہ کا ہے۔ ایک دوسرا اختلاف یہ بھی نظر آتا ہے کہ صوفی الہام وکشف کے صحیح اور غلط ہونے کے لیے سند کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض غیر عالم صوفیہ کا خیال ہے کہ تمام کشوف والہامات صحیح ہوتے ہیں اور ان کے لیے کسی دوسرے ذریعہ سے اسناد کی ضرورت نہیں ہوتی مگر اصحاب فکر وعلم صوفیہ کا خیال و نظر یہ ہے کہ کشوف والہامات کا وہی قرآنی و حدیثی یعنی شریعت کے مطابق ہونا ضروری ہے یعنی ان کی صحت مشروط ہے، اگر قرآن وحدیث یا دین کے مطابق ہیں تو صحیح اور اگر ان کے خلاف ہیں تو غلط۔ تیسری صورت یہ ہے کہ وہ دین وشریعت کے مطابق ہیں اور نہ ان کے خلاف تو ایسی نئی صورت میں ان کا حکم واطلاق بھی مختلف فیہ ہے ۔

اطلاق وحی والہام صوفیہ

خاطر ایک تجلّی ہے جو آواز اور خطاب کی شکل میں قلب(دل) پر وارد (Incoming)ہوتی ہے،یہ خاطرِ ربانی بھی ہوتی ہے، خاطرِ نفسانی بھی ہوتی ہے اور خاطرِ شیطانی بھی ہوتی ہے۔خاطر ایک خیال کی صورت میں دل پر وارد ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ شیطان کی طرف سے بھی وارد ہوتا ہے، اس صورت میں اُسے خاطرِ شیطانی کہیں گے۔ اگر یہ نفس کی طرف سے وارد ہو تو اسے خاطر نفسی یا خاطر نفسانی کہتے ہیں۔ ملائکہ کی طرف سے وارد ہو تو خاطر ملکی کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں فرشتہ وہ چیز قلب میں القا کرتا ہے۔ ہاں اس کی پہچان کرنا پڑتی ہے۔ طبیعت پر مرتب ہونے والے اثرات سے تعین ہوتا ہے کہ یہ خاطر کون سا ہے۔ قرآن مجید نے سورۃ الناس میں خود اس حقیقت کو منکشف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ  الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ,مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ۔[سورۃ الناس:۴۔۶]

وسوسہ انداز شیطان کے شر سے جو (اللہ کے ذکر کے اثر سے) پیچھے ہٹ کر چھپ جانے والا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔

لفظ الْجِنَّۃ میں شیاطین کی طرف اشارہ ہے جو نفس اور صدور میں وسوسہ ڈالتے ہیں۔ یہ بھی انہی خواطر میں سے ہیں۔ اسی طرح خاطرِ ربّانی حق (اللہ) کی طرف سے آتا ہے۔ گویا یہ حق کی طرف سے حق کا القا ہے۔ جب یہ الہام کہلانے کے لیے حق کی طرف سے ہوا تو خاطرِ نفسانی بھی پیچھے رہ گیا اور اس میں سے خاطرِ شیطانی بھی نکل گیا۔ شیطان اور نفس کے اِلقا یا خاطر کو اصطلاحی معنیٰ میں الہام نہیں کہیں گے۔ لغوی معنیٰ میں اس کے لیے ’الہام‘ کہا جا سکتا ہے۔ گویا خاطرِ ربانی سے شرحِ صدر ہوتا ہے اور جب شرحِ صدر ہوتا ہے تو اسے قرآن مجید نے اسے یوں بیان کیا:

اَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ.[سورۃ الزمر: 22]

بھلا، اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر (فائز) ہوجاتا ہے۔

اس سے حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اِنشراحِ صدر، قلب میں ایک نور لاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے تو وہ اللہ کی طرف سے نور پر ہوتا ہے۔ اُسے ایک نور مل جاتا ہے۔

خاطر

وحی الٰہی جسے طریق نبوت بھی کہا جا تا ہے ،اس طریقہ  پر عمل در آمد ہونا سب کے لیے لازمی ہے ،یعنی صاحب وحی کے لیے بھی اس پر عمل کرنا لازم ہے اور صاحب وحی کے مخاطبین کے لیے بھی وہ لازمی ہے۔ لہٰذا کتاب وسنت کے تمام احکام وآداب رسول اکرمﷺ کے ساتھ ساتھ تمام اہل ایمان اور امتیوں کے تمام طبقات وافراد کے لیے لازمی اور ضروری اور فرض ہیں۔ اس طرح وحی  پر عمل در آمد ہونا عام بھی ہے اور لازمی بھی ۔ الہام صوفیہ کا معاملہ مختلف ہے، اس طریق ولایت کے ذریعہ علم کا لازمی اور حتمی اور یقینی ہونا ممکن نہیں ہے
اس لیے وہ اپنے اطلاق ونفاذ میں بھی اختلاف رکھتا ہے ۔ یہ اختلاف صوفیہ کرام کے دوطبقات اہل فکر کے نتائج کا ورثہ ہے۔ ایک طبقہ فکر کا خیال ہے کہ جس صاحب الہام وکشف پر الہام و کشف ہو اور وہ قرآن وسنت کے مطابق ہونے کی وجہ سے صحیح بھی ہوتو اس صاحب کشف والہام پر اس خاص الہام ذاتی اور کشف شخصی پر عمل کرنا ضروری ہے کیوں کہ وہ خاص عنایت الٰہی سے ملا ہے۔ دوسرے طبقہ فکر کے مطابق صاحب الہام وکشف پر اپنے کشف والہام پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے، اسے اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اس پرعمل کرے، اسے تسلیم کرے اور اس کے مطابق اقدامات کرے ،اس کا اظہار واعلان کرے اور چاہے تو عمل نہ کرے ، احوال و مقامات صوفیہ کا معاملہ کشف والہامِ شخصی پر مبنی ہوتا ہے۔ خاص کر مقامات کے بارے میں ان کے تجربات روحانی بالکل ذاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ بیشتر ا کا بر صوفیہ کے الہامات و کشوف، مقامات ،فنا و بقاء، جمع وجمع الجمع ،فرق وفرق مطلق ،عبد بیت وتوحید کے بارے میں نہ صرف مختلف ہیں بلکہ ان کے اطلاقات ونفاذات بھی مختلف ہیں ۔صدیقیت ، مجددیت ،خلافت دوراں ،قطبیت، قیومیت اور ان سے وابستہ متعدد سلوک کے معاملات سب اکابر صوفیہ کے ہاں مختلف ہیں ۔

ہاجز

 ایک خیال ایسا  ہے جو نفس پر وارد ہوتا ہے اُسے ھاجز کہتے ہیں۔ ھاجز کے مختلف درجات و مراتب ہوتے ہیں:

عملی طور پر اگر وہ خیال پہلی بار آئے تو یہ ارادہ ہے، یعنی آدمی ایک عمل کی طرف آگے بڑھے اور وہ نفس میں قائم و متحقق ہو جائے تو اِسے ارادہ کہتے ہیں۔اگر اُس میں تردد،شک آجائے تو اسے داعیہ (بلانے والا) کہتے ہیں کیونکہ اس میں تشکیک ہوتی ہے اور کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر کی حالت پائی جاتی ہے۔اگر پھر تردد کے ساتھ تیسری بار خیال آئے تو اسے ’ہمت‘ کہتے ہیں۔ اس لیے عام طور پر لفظ ہمت، ارادے کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔پھر جوں جوں یہ آتا چلا جا رہا ہے توں توں اس کا مطلب ہے کہ وہ پختگی کی طرف آرہا ہے۔ اگر بار بار پلٹ کر وہی آ رہا ہے تو مطلب ہے کہ وہ ہمارے نفس میں اپنے قدم جما رہا ہے۔چوتھی بار آئے تو اسے عزم کہتے ہیں۔ اس مرحلہ پر یہ دل کی طرف متوجہ ہو کر اس بندے کو کسی فعل کے کرنے پر تیار کرنے لگتا ہے۔پانچویں مرحلے پر وہ بندے کو کام کرنے پر تیار کرنے لگتا ہے تو اسے قصد کہتے ہیں۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو ارادہ اس کا پہلا مرحلہ تھا جبکہ قصد اس کا آخری درجہ ہے۔ اگر یہاں وہ طے کر لے، اس میں پختگی آجائے اور وہ کام کرنے لگے یا کرنے کے قریب پہنچ جائے تو اس کیفیت کو نیت کہتے ہیں۔ اس طرح ’ہاجز‘ جو نفس پر وارد ہوتا ہے، وہ ارادے سے چلتا ہوا نیت تک پہنچتا ہے۔

الیقین کے درجات

علم میں ہمیشہ ارتقاء ہوتا ہے۔ آدمی پہلے بچہ ہوتا ہے۔ پھر جوان ہوتا ہے۔ پھر جیسے جیسے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ویسے ویسے اس  میں پختگی، وسعت، گہرائی اور گیرائی آتی چلی جاتی ہے۔ اِسی دوران اُس کا مطالعہ بڑھتا ہے، معارف بڑھتے ہیں، تحقیق بڑھتی ہے اور پھر اس میں ثقاہت آتی جاتی ہے۔ اس طرح علم میں مرحلہ وار اور تدریجاً ترقی وقوع پذیر ہوتی رہتی ہے۔ بعض اوقات لوگ خالصتاً خارجی عوامل کو مدِ نظر رکھ کر صرف کتابوں سے استفادہ کر کے لکھتے ہیں۔ یعنی ایک آدمی نے کیلے کے ذائقے کو کتابوں سے پڑھ کر جوں کا توں لکھ دیا اور ایک آدمی نے کیلا کھا کر اسے محسوس کرتے ہوئے تحریر کیا۔ ایک آدمی نے صرف شربتِ روح افزا سن کر لکھ دیا اور دوسرے آدمی نے خود شربتِ روح افزا پی کر اس کے بارے میں لکھاہے۔ ایک لکھاری سن کر لکھتا ہے جبکہ دوسرا دیکھ کر لکھتا ہے تو دونوں میں فرق ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ علم کے تین درجات ہیں:

۔ علم الیقین

۔ عین الیقین

۔ حق الیقین

انبیائے کرام  اور حتیٰ کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے علم میں بھی ارتقاء ہوتا رہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو علم دیتا اور مسلسل بڑھاتا چلا جاتا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا ہے کہ جو علم زندگی کے آخری وقت میں ـتھا وہی درجہ اور وسعتِ علم ان کے چالیس سال پہلے بھی ہو۔ ہر چیز میں ارتقاء، توسیع، تدریج اور تدرج ہے۔

اِسی بناء پر الہام اور علمِ لدنی کے حوالہ سے  بہت سے التباسات پیدا ہوگئے ہیں ،مذکورہ نکتہ کو ذہن نشین کرلیں کہ الہام اور علم لدنی کو ایک ہی درجہ (category)میں تحریر کیا گیا ہو تو جان لیں کہ وہ کسی مصنف کی نوجوانی کی تحریر ہے۔ علماء دین عمر بھر لکھتے تھے۔ انہوں نے کئی رسائل جوانی کی عمر میں لکھے، کئی پچاس برس کو پہنچے تو تحریر کیے اور کئی اس کے بعد کے عرصے میں اور کئی عمر کے آخری حصے میں لکھے۔ جیسے جیسے ان کے علم میں ارتقاء ہوتا گیا ویسے ویسے ان کی آراء بھی تبدیل ہوتی رہیں۔

جیسا کہ شریعت میں ناسخ و منسوخ ہے۔ بعض احکامات اوائل میں آئے، مگر بعد میں حالات بدل گئے تو وہ احکام منسوخ ہوگئے۔ اب ہمیں ناسخ آیات کا ذکر بھی ملتا ہے اور منسوخ آیات کابھی۔ ناسخ پر عمل کرنے کا حکم ہے جب کہ منسوخ کو چھوڑ دینے کا۔ ناسخ اور منسوخ میں زمانی ترتیب ہوتی ہے۔ علم کے ارتقاء میں بھی زمانی ترتیب اِسی طرح اثر انداز ہوتی ہے۔

علم لدنی

ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تقویٰ کا الہام فرشتوں کی طرف سے ہوتا ہے تو پھر اللہ کی طرف سے کیا آتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’علمِ لدنی‘ آتا ہے۔اِس سے مراد وہ علم ہے جو بغیر ریاضت و مجاہدہ کے حاصل ہو اور انسان کو اس کے لیے تگ و دو نہ کرنا پڑے۔ اسے لدنی اِسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتا ہے اور ہماری محنت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔قرآن مجید میں اس کی واضح مثال واقعہ موسیٰ و خضر علیہما السلام ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَـآ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا۔[ سورۃ الکهف: 65]

تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے علمِ لدنی کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔ یہاں فاعل کی ضمیر کو مخفی نہیں رکھا بلکہ صاف کھول کر بیان کر دیا ہے، جبکہ جہاں فجور اور تقویٰ کی نفس میں الہام کی بات کی وہاں فاعل کی ضمیر کو مخفی رکھا اور فرمایا:

فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَا۔[ سورۃ الشمس: 8]

پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی۔

’علمِ لدنی‘ میں فاعل کو اس لئے مخفی نہ رکھا تاکہ کوئی اِس کا واسطہ نہ تلاش کرتا پھرے کہ مخفی و غیبی علم تو ملا مگر کس ذریعے سے ملا؟ کیا کسی فرشتے کے ذریعے ملا؟ کیا کسی روح کے ذریعے ملا، یا جوہرِ عقل کے ذریعے ملا؟ کتابوں کے ذریعے ملا یا صحبتوں کے ذریعے ملا؟ کہیں بندہ اُن ذرائع کو تلاش نہ کرتا پھرے کہ صاحب ِعلم لدنی کو یہ علم کس ذریعے سے ملا تاکہ میں بھی اُس ذریعے کو اختیار کروں اور اس علم کا حامل بن جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ علمِ لدنی کے ذریعے کو تلاش کرو گے توذرائع نہیں ملیں گے بلکہ علمِ لدنی وہ علم ہے جو بغیر ذرائع اور وسائط کے براہِ راست ہم کسی کے دل میں عطا کر دیتے ہیں۔

الہام اور علمِ لدنی میں فرق

خاطر اور الہام عارضی ہوتا ہے، یہ آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔   ہمیشہ باقی نہیں رہتا۔ اس کے برعکس علم لدنی مستقل قائم رہتا ہے۔

الہام اور علم لدنی میں ایک فرق یہ ہے کہ اِلہام فرشتے کے ذریعے ہوتا ہے۔ دوسری طرف علمِ لدنی کسی چینل یا مادی ذریعے سے نہیں آتا، یہ روح کے چینل سے بھی نہیں آتا بلکہ علمِ لدنی بغیر واسطے کے براہِ راست مردِ عارف، مردِ مومن کے قلب میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہ وہبِ خالص ہوتا ہے اور اس میں فرشتہ بھی دخیل (involve) نہیں ہوتا یعنی اللہ اور بندے کے قلب کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے:

وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا۔[ سورۃ الکهف: 65]

اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔

دل اور قلب میں فرق

عام طور پر جب ہم قلب کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اُس سے مراد جسم میں دھڑکنے والے مشت برابر گوشت کے لوتھڑے کو لیتے ہیں۔ انسانی جسم کے اس عضو کے چار خانے ہوتے ہیں۔ اوپر والے دو حصوں کو auricles کہتے ہیں جب کہ نچلے دو حصوں کو ventricles کہتے ہیں۔ دل کے اپنے عضلات (cardiac muscles)، tissues اور valves ہیں۔ پورے جسم کا گدلا خون وریدوں (veins) کے ذریعے قلب کے دائیں auricle میں داخل ہوتا ہے اور وہاں سے پمپ ہو کر دائیں ventricle میں جاتا ہے۔ پھر وہاں سے پمپ ہو کر پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے جہاں خون کی صفائی ہوتی ہے اور اسے آکسیجن ملتی ہے۔ پھیپھڑوں سے صاف ستھرا خون آکسیجن لے کر دوسری جانب کے بائیں auricle میں آجاتا ہے۔ وہاں سے پمپ ہو کر نیچے بائیں ventricle میں جاتاہے اور ادھر سے پمپ ہوکر شریانوں (arteries) کے ذریعے پورے جسم کو صاف خون فراہم کردیا جاتا ہے۔ اس دل کے ہر ایک حصے کا اپنا اپنا عمل ہے۔ عین اُسی طرح جیسے دماغ کی بھی اپنی ایک دنیا ہے۔

صوفیا جس قلب کی بات کر رہے ہیں وہ خون پمپ کرنے والا دل نہیں، بلکہ وہ قلب القلب ہے۔ وہ قلب ایک روحانی جوہر ہے۔ دھڑکنے والا دل تو صرف قلب القلب کا مقام ہے۔ اُس قلب القلب کا تعلق علمِ اَنوارِ الٰہیہ کے ساتھ ہوتا ہے، جس کا تعلق ایمان میں تصدیق کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور تکذیب کے ساتھ بھی۔

قلب

قلب کا لفظی معنیٰ ’ہر وقت تبدیل ہونے والا‘ ہے۔ جو ہمہ وقت ایک حال ہی میں رہے وہ قلب نہیں بلکہ وہ تو ایک پتھر ٹھہرا۔ اسی لیے قلب کہا جاتا ہے کہ اِس کا حال ہر وقت بدلتا رہتا ہے۔ اِس کی کیفیات و احوال چونکہ دائماً بدلتے رہتے ہیں تو اِس کے الٹ پُلٹ ہونے اور ہر وقت بدلتے رہنے کی وجہ سے عربی میں اس کا نام قلب رکھا گیا ہے۔

قلب پر کبھی نفس و شیطان کی طرف سے خیالات کا ورود ہوتا ہے، کبھی ملائکہ کی طرف سے خواطر کا نزول ہوتا ہے، کبھی رحمن کی طرف سے خواطر و تجلیات کی برسات ہوتی ہے۔ کبھی یہ پتھر کی طرح سخت ہوتا ہے اور کبھی یہ موم سے بھی نرم ہو جاتا ہے۔ کبھی اِس میں خشیت اور خشوع و خضوع کی کیفیات طاری ہوتی ہیں تو کبھی اِس میں فسق و فجور گھس جاتا ہے۔ کبھی یہ قلب خشیتِ الٰہی سے لرزنے لگتا ہے اور کبھی بے مروت اور متکبر بن جاتا ہے۔ کبھی اس میں کسی کے لیے رغبت پیدا ہوتی ہے اور کبھی کسی کے لئے نفرت در آتی ہے۔ ان سارے احوال و تجلیات کے ساتھ اِس کی کیفیات بھی بدلتی رہتی ہیں۔ چنانچہ اصل قلب گوشت کے اس لوتھڑے کا نام نہیں ہے جو سینہ میں دھڑکتا ہے۔ جس طرح عقل ایک قوت ہے اور اس قوت کے پانچ حواس ہیں، اسی طرح قلب بھی ایک قوت ہے، جب بات عقل سے آگے نکل جائے تو ایک نئی قوت اُس کا ادراک کرتی ہے، اُس قوت کو قلب کہتے ہیں اور اُس قوت کی جگہ یہ دل ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَهٗ قَلْبٌ۔[ سورۃ ق: 37]

بے شک اس میں یقینا انتباہ اور تذکّر ہے اس شخص کے لیے جو صاحبِ دل ہے (یعنی غفلت سے دوری اور قلبی بیداری رکھتا ہے)۔

اس آیت سے واضح ہوتاہے نصیحت جس چیز کی طرف متوجہ کر رہی ہے، عقل اُس کا احاطہ و اِدراک ہی نہیں کر سکتی۔ وہ عقل کی صلاحیت سے ماورا ہے اور یہاں سے ہی اگلا ذریعۂ علم شروع ہو جاتا ہے۔حواسِ خمسہ یعنی آنکھیں، کان، ناک، ہاتھ اور زبان اپنی محدود صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہوئے کسی چیز کا بذاتِ خود کوئی امتیاز نہیں کر سکتے۔ یہ حواس تو آواز، صورت اور اُس کے معانی کو بھیجتے ہیں۔ اُس کے بعد سارا کام عقل کے کارخانے میں تشکیل پاتا ہے۔ جس طرح ان حواس کی محدود صلاحیت ہے اور وہ اپنی مقررہ حد سے آگے کام نہیں کر سکتے، عین اسی طرح عقل کی صلاحیت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ وہ صرف اُنہی کے بھیجے ہوئے مقدمات کو مرتب اور منظم کر کے علم کو تشکیل دیتے ہیں۔ اب جو چیزیں حواس میں نہیں آئیں گی وہ عقل میں بھی نہ سما پائیں گی۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ عقل میں صرف وہی کچھ آتا ہے جو حواس کے دائرے میں سما سکتا ہے۔

اب جن چیزوں کی طرف قرآن نے وحی اور ایمان کہہ کر متوجہ کیا ہے، وہ چیزیں دراصل وہ حقائق ہیں جو حواس اور عقل کے دائرے میں نہیں آتے۔ اِنہیں سمجھنے کے لئے بھی لازماً کوئی ذریعۂ علم ہوگا اور وہ ذریعہ عقل سے آگے کی کوئی اور چیز ہوگی۔ یہ بات ہم ثابت کرچکے کہ وہ ذریعہ یہ گوشت کا بنا ہوا عضو نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا یہ دائرۂ کار ہی نہیں ہے۔ لا محالہ یہ وہی قلب ہوگا جسے قلب القلب کہتے ہیں۔

پتہ چلا کہ یہ ’قلب‘ کوئی اور چیز ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ عقل کا دائرہ جہاں ختم ہو جاتا ہے، اس سے آگے قلب شروع ہوتا ہے۔ قلب ایک ایسا جوہر ہے جس کی حالت ہر وقت متغیر رہتی ہے۔ کبھی یہ حضرتِ الٰہیہ کے قریب جاتا ہے اور کبھی اس کے بعید۔ کبھی اس میں روشنی آتی ہے تو کبھی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ کبھی اس میں قبض آتی ہے توکبھی بسط۔ کبھی اس کے اوپر مختلف خواطر آتے ہیں اور کبھی تجلیاتِ ربّانی کا ورود ہوتا ہے۔

قلب کے اَحوال و کیفیات

قلب کی مختلف کیفیات ہیں:

۔ قلبِ میّت     [مردہ دل] 

۔ قلبِ مریض   [بیمار دل]

۔ قلبِ حَی       [زندہ دل]

۔ قلبِ سلیم      [با ذوق دل]

5۔ قلبِ شہید     [حیات ابدی سے سرشار دل]

قلب کی یہ کیفیات اس کے ذاکر یا غافل ہونے کی بناء پر ترتیب پاتی ہیں۔

قرآن مجید نے فرمایا ہے:

وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِکْرِنَا۔[ سورۃ الکهف: 28]

اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے۔

یعنی اَہلِ ایمان کو اُن کی پیروی کرنے کا حکم ہے جن کے قلب ذاکر ہیں اور اُن کی پیروی سے روکا گیا ہے جن کے دل غافل ہیں۔ قلب کبھی غفلت کی کیفیت میں ہوتا ہے اور کبھی ذکر  کی کیفیت میں ہوتا ہے۔ اگر اس میں کفر ہے تو وہ دلِ مردہ ہے۔ اگر اس میں ایمان آجائے تو وہ دلِ زندہ ہے۔ اگر اس میں فسق و فجور ہے تو وہ قلبِ ضعیف اور قلبِ بیمار ہے۔ کبھی وہ زندہ دل ہو کر قلبِ سلیم بن جاتا ہے۔ کہیں یہ قلبِ عارف ہے تو کہیں قلبِ ذاکر ہے۔ جیسے جیسے قلب کی حالتیں بدلتی جاتی ہیں ویسے ویسے اس کا عنوان بھی تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کا تعلق پھر عالمِ نور کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔

دراصل قلب ایک ایسا میدانِ جنگ ہے جہاں ایک طرف روح اپنے آسمانی اور ملاء اَعلیٰ کے نورانی لشکروں کے ساتھ اس کے حال کو سنوارنا چاہتی ہے جب کہ اس کے برعکس نفس اپنے جسمانی، ظلماتی اور خواہشات کے لشکروں کے ساتھ اس پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس دوران قلب جب نفس کے زیرِ اثر ہو جاتا ہے تو حیوانوں کی طرح قلبِ ظلماتی اور قلبِ بہیمی ہو جاتا ہے۔ پھر کبھی درمیان میں غیر جانب دار (neutral) ہو جائے تو قلبِ جسمانی ہو جاتا ہے۔ کبھی روح کا غلبہ ہو جائے تو قلبِ ملکوتی ہو جاتا ہے۔ اگر اس سے بھی بلند تر ہو جائے تو قلبِ جبروتی اور لاہوتی ہو جاتا ہے اور پھر ملاء اعلیٰ سے بڑھ کر حضرتِ صمدیت کے ساتھ اس کا تعلق جڑ جائے تو وہ قلبِ ربانی ہو جاتا ہے۔

مذکورہ سب حالتیں قلب کے مختلف عنوانات ہیں۔ جیسے جیسے حالت بدلتی جاتی ہے ویسے ویسے اُس کا عنوان بھی تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا۔[ سورۃ الأنعام: 122]

بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لیے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لیے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔

یہاں مردہ سے مراد وہ موت نہیں ہے جس کے بعد تدفین کر دی جاتی ہے۔ قرآن مجید استعارہ میں بات کر رہا ہے۔ طبی نقطۂ نظر (medical point of view) سے تو وہ زندہ ہیں مگر قرآن انہیں مردہ اِس لیے کہہ رہا ہے کہ ان کے دل جہالت اور کفر کی ظلمت کے باعث مر چکے ہیں۔ یہ وہ موت و حیات ہے جس کا تعلق اُس ’قلب‘ کے ساتھ ہے جو اِس وقت زیرِ بحث ہے۔ آیت مبارکہ کی رُو سے وہ لوگ جو مردہ تھے اور جن کے دلوں میں کفر تھا، انہیں ایمان کی توفیق بخشی گئی تو ان کا دل زندہ ہوگیا۔ پھر ترقی دیتے ہوئے ان کے قلوب کو نور سے بھر دیا گیا۔ جب ایمان کے ذریعے قلب کے زندہ ہونے اور پھر اُسے نور عطا کیا جانا متحقق ہوگیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے قلب میں نور ہوتا ہے اور کسی کے دل میں تاریکی ہوتی ہے۔ مومن منور قلب لے کر لوگوں میں چلتا ہے اور اپنے قلب کا نور لوگوں میں بانٹ کر اُن کے دلوں میں روشنیاں بکھیرتا ہوا ظلمتوں کو دور کرتا چلا جاتا ہے۔ پس صاحبِ ایمان شخص وہ ہے جو کفر کی ظلمتوں سے نکل کر قلبِ زندہ کا حامل ہو جائے۔ ایسے شخص کو ایمان کے نور کے باعث قلبِ نورانی نصیب ہوتا ہے اور پھر وہ صرف نور والا ہی نہیں رہتا بلکہ لوگوں میں بھی نور کی خیرات بانٹنے والا بن جاتا ہے۔ ایسے خوش نصیب کو اس شخص کے برابر کیسے سمجھ لیا جائے جو ابھی تک خود اندھیروں میں بھٹک رہا ہو! گویا نورِ قلب رکھنے والے اور ظلمتِ قلب رکھنے والے ہرگز برابر نہیں ہو سکتے اور قلب ہی وہ برتن ہے جس میں یہ نور آتا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔[ سورۃ الحدید: 28]

اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اُس کے رسولِ (مکرّم ﷺ) پر ایمان لے آؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصّے عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے نور پیدا فرما دے گا جس میں تم (دنیا اور آخرت میں) چلا کرو گے اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔

یہ نور اس کے جسم پر نمودار نہیں ہوگا بلکہ اس کا محل تو قلبِ مومن ہے۔ یہ اجالا تو اُس کے قلب کو محلِ نور بنا دے گا۔ گویا یہ الگ قلب ہے جس میں نور کی شعاعیں پھوٹتی ہیں۔ اس میں رحمت کے دو حصے ملیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنا نور عطا فرمائے گا۔ یہ وہی نور ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں یوں فرمایا گیا ہے:

اللهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۔[ سورۃ البقرة: 257]۔

اللہ ایمان والوں کا کار ساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔

نفس کے درجات

یہ بات ذہن میں رہے کہ نفس بذاتِ خود مادی وجود نہیں ہے، یہ وجود میں روح کی طرح کا ایک جوہر ہے، اس کی موجودگی ایک روحانی چیز ہے جیسے عقل اور قلب ہے۔ یہاں قلب سے مراد قلب القلب ہے۔ اسی طرح عقل اور شے ہے جب کہ دماغ اور چیز ہے۔ دماغ کا مادی اور جسمانی وجود ہے، اُس کے اپنے خانے ہیں جبکہ عقل دراصل ایک جوہر ہے۔ متقدم علماء نے نفس اور روح پر بڑی بحثیں کی ہیں اور انہیں ایک ہی چیز قرار دیا ہے مگر محدثین اور صوفیاء نفس اور روح دونوں کو الگ الگ مانتے ہیں۔ اس باب میں ہمارا اعتماد صوفیاء اور اولیاء کی تعریف پر ہے، کیونکہ نفس، قلب اور روح اُن کا موضوع ہے۔ یہ فقہاء یا متکلمین کا موضوع (subject) ہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر جب کیمسٹری کی بات ہو تو کیمیا کے ماہر (specialist) کی بات زیادہ معتبر ہوگی، بجائے اُس کے جو فزکس یا بیالوجی کا ماہر ہے۔ جب بیالوجی کی بات آئے گی تو اسی کے ماہر کی بات مانیں گے بجائے اس کے جو طبیعیات (physics) کا ماہر ہے۔ الغرض جب ایک فن کا ماہر اور متخصص اپنے شعبہ کے بارے میں بات کرے گا تو اس کی رائے زیادہ قابل قبول، وقیع اور مستند ہوگی۔

شیخ عبد القادر جیلانی نے سات نفوس کے علم کو بیان کیا ہے۔ پھر شیخ اکبر نے بھی انہیں بیان کیا ہے۔ بعد ازاں جس نے بھی لکھا ہے وہ انہی ذرائع کی بنیاد پر آگے لکھتے چلے گئے ہیں۔ 

نفسِ اَمّارہ

نفس کی سات اقسام میں  سب سے پہلا نفس ہے، یہ سب سے زیادہ گناہوں کی طرف مائل کرنے والا اور دنیوی رغبتوں کی جانب کھینچ لے کر جانے والا ہے۔ یہی نفس فواحش و منکرات، لذات و شہوات اور جملہ بدکاریوں کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کی نسبت قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے:

اِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوٓءِ۔[یوسف،: 53]

بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے۔

نفس امارہ کی صفات میں بخل، کنجوسی، حرص، طمع، لالچ، بدی،حماقت، شہوات پرستی، بغض و کینہ، حسد و عناد، جہالت و غفلت، سستی و کاہلی، غصہ، غیض و غضب، غیبت و چغلی اور عیب جوئی وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے کسی ایک صفت کا پایا جانا بھی نفسِ امارہ پر دلالت کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَفَکُلَّمَا جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ م بِمَا لَاتَهْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ۔البقرة، 2: 87

تو کیا (ہوا) جب بھی کوئی پیغمبر تمہارے پاس وہ (احکام) لایا جنہیں تمہارے نفس پسند نہیں کرتے تھے تو تم (وہیں) اکڑ گئے۔

یہاں نفس امارہ کی نمایاں صفت ’تکبر‘ بیان کی گئی ہے اور حق کا انکار واقع ہونا بھی اسی نفس کے باعث بیان کیا گیا ہے۔

نفسِ امارہ رکھنے والے شخص کا دل تصوف کی اصطلاح میں ’قلب بہیمی‘ یعنی حیوانی دل کہلاتا ہے۔ اس شخص کی طبیعت اور مزاج میں حیوانی قوتوں کا غلبہ ہوتا ہے۔ ایسے دل کو شیطانی وسوسے اور منفی خیالات اپنی سواری بنا لیتے ہیں۔ بعض اوقات اس کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ بیرونی اسباب اور اثرات کے بغیر ہی خود بخود دل و دماغ میں شیطانی وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں۔ کبھی ان وسوسوں کا زور اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ شخص انہیں وسوسوں کی بجائے کھلے خیالات کے طور پر ذہن میں تسلیم کرنے لگتا ہے۔ انہی پر اس کی رائے قائم ہو جاتی ہے۔ بالآخر یہ وسوسے اعتقادات میں بھی شکوک پیدا کرنے لگتے ہیں اور وہ شخص اس راہ پر بڑھتا بڑھتا ذہنی اور طبعی طور پر ان میں اتنا محو ہو جاتا ہے کہ اس کی طبیعت اعتدال سے خالی ہو کر سراپا نفسِ امارہ بن جاتی ہے۔ روحانی اعتبار سے صوفیاء کرام نے نفسِ امارہ کا رنگ نیلا (blue) قرار دیا ہے۔

نفسِ لوّامہ

یہ دوسرا نفس ہے. انسان جب نفس امّارہ کے دائرے سے نکلتا ہے تو لوَّامہ کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔ اس مقام پر دل میں نور پیدا ہوتا ہے جو باطنی طور پر ہدایت کا باعث بنتا ہے۔ جب نفس لوامہ کا حامل انسان کسی گناہ یا زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اس کا نفس اسے فوری طور پر ملامت کرنے لگتا ہے، اسی وجہ سے اسے لوَّامہ (سخت ملامت کرنے والا) کہتے ہیں۔ یہ اچھا نفس ہے۔ یہ نہ صرف نیکی اور بدی میں امتیاز کرتا ہے بلکہ اپنے داخلی نور کے باعث بدی سے نفرت بھی پیدا کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس نفس کی قسم کھائی ہے:

وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ۔[القیامة: 1-2]

اور میں قسم کھاتا ہوں (برائیوں پر) ملامت کرنے والے نفس کی۔

یہ نفس صالحین کو نصیب ہوتا ہے۔ علماء بھی اسی نفس سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ درج ذیل آیت کریمہ میں بھی اسی نفس کی طرف اشارہ ہے:

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰی۔[النازعات: 40۔-41]

اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا۔ تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگا۔

نفس لوامہ کی صفات میں حلال کی رغبت، لوگوں کے لئے نفع بخشی، دوسروں کا بوجھ اٹھانا، لغویات سے گریز کرنا اور پسندیدہ اخلاق شامل ہیں۔ ان کے ساتھ یہ بھی علم رہے کہ اس درجہ پر فائز ہونے کے باوجود نفس لوامہ میں بعض رذائل اور ناپسندیدہ صفات بھی موجود رہتی ہیں۔ اس لئے اس کا تزکیہ نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ اس کی صفات میں مکرو فریب، ہوا و ہوس، خود بینی، خود پسندی، تکبر، اعتراض، قہر و جبر اور نفسانی خواہشات بھی شامل ہیں۔نفسِ لوامہ رکھنے والا شخص کا دل تصوف کی اصطلاح میں ’قلب انسانی‘ کہلاتا ہے، اس نفس کی مثال ایک سرکش گھوڑے کی سی ہے۔ یہ بنیادی طور پر ناپاک تو نہیں ہے مگر سرکش ضرورہے۔ اسے لگام کے ذریعے قابو میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی گھوڑے کو لگام دی ہو تو سوار کی مرضی جدھر چاہے لے جائے اور اگر لگام نہ ہو تو گھوڑے کی مرضی جدھر اٹھا کر سوار کو پھینک دے۔ ’قلب انسانی‘ کیسے وجود میں آتا ہے؟ اسے آسانی سے یوں سمجھ لیجئے کہ جس شخص میں ایسی ہم آہنگی پیدا ہو جائے کہ اس شخص کی طبیعت میں اعتدال آجائے تو اس کی کسی کے لئے محبت اور چاہت یا اس کی رضا مندی اور ناراضگی کی سب حالتیں حق اور صداقت پر مبنی ہو جاتی ہیں۔ نہ تو اس کا باطن مکمل طور پر نور میں بدل جاتا ہے اور نہ خالص ظلمات اور تاریکیاں برقرار رہتی ہیں بلکہ وہ دونوں کے درمیانی منزل پر قائم ہو جاتا ہے۔ وہ دوزخ سے ڈرتا ہے اور جنت کی تمنا بھی کرتا ہے۔ وہ اپنے اعمال کو اسی خوف و طلب کے مطابق ڈھالتا ہے تو ایسے شخص کا دل قلب انسانی اور نفس، نفسِ لوامہ کہلاتا ہے۔ اس نفس کا رنگ زرد (yellow) ہوتا ہے۔

نفسِ ملهَمہ

نفس جب تیسرے درجے پر فائز (upgrade) ہوتا ہے تو نفسِ ملهَمہ قرار پاتا ہے۔ یہ ایسا نفس ہے جس پر الہام کیا جائے۔ نیک چیزوں کا الہام فرشتے کرتے ہیں اور بری چیز کا الہام شیطان کرتا ہے۔ چونکہ اس پر الہام کیا جاتا ہے تو یہ مُلْهَمْ ہوگیا (یعنی جس پر الہام کیا جائے)۔ اس مقام پر خیر کا الہام غالب ہوتا ہے۔ کبھی اس کے اندر اتنی طاقت آجاتی ہے کہ یہ الہام وصول کر کے اپنا الہام قلب پر کرتا ہے۔ نیکی کا خیال جو اس نے بطریقِ الہام ملائکہ سے وصول کیا تھا، قلب کو منتقل کرے تو پھر یہ مُلْهِمَہ (الہام کرنے والا) بھی ہوگیا۔ چنانچہ یہ مُلْهِمْ بھی ہے اور مُلْهَمْ بھی۔ یہاں دونوں شانیں یک جا ہیں۔نفس بھی قلب پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور روح بھی قلب پر اپنا اثر ڈالنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ نفس انسانی وجود کے اندر عالمِ ناسوت یعنی مادی دنیا کی شہوتوں، برائیوں اور حرص و ہوس کا نمائندہ ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے اثرات دل پر پڑیں اور وہ میرے ساتھ ہو جائے۔ چنانچہ اگر دِل نفس کے زیر اثر آجائے تو دل ڈگمگاتا اور متزلزل ہوتا رہتا ہے۔ اس کی حالت ہر وقت بدلتی رہتی ہے۔ اسی لیے اسے قلب کہتے ہیں۔

 قلب کا معنیٰ تبدیل ہونے اور بدلتے رہنے کے ہیں۔ اس کے برعکس روح عالمِ لاہوت، عالمِ جبروت اور عالمِ ملکوت کی نمائندہ ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ دل پر ملکوتی احوال کا رنگ چڑھے۔ چنانچہ جب قلب، روح کے زیر اثر آ جائے تو انسان ملکوتی اوصاف کا حامل ہو جاتا ہے۔ جتنا تزکیہ و تصفیہ، عبادات، زہد و ورع، ریاضات و مجاہدات اور مشقت ہوگی نفس اتنا ہی صاف ستھرا ہوتا چلا جائے گا۔

نفسِ ملہمہ کی نمایاں صفات میں سے قناعت، سخاوت، علم، تواضع و اِنکساری، توبہ، صبر، تحمل و برداشت اور خلوص ہیں۔ گویا اس مقام پر نفس کی صفات میں فضائلِ اخلاق اور خصائلِ حسنہ نمایاں ہو جاتے ہیں۔جوں جوں نفس اپنے تزکیہ کے ذریعے پاک صاف ہوتا چلا جاتاہے اس میں رذائل کا معمولی سا ذرہ اور برائی کا خفیف سا نکتہ بھی زیادہ واضح ہو کر کھٹکتا ہے۔ اس لئے اہل حق کا رتبہ جتنا بڑھتا چلا جاتا ہے وہ اسی قدر صفائے باطن پر مزید توجہ کرتے ہیں۔

نفسِ مُلْهَمَہ کا رنگ سرخ (red) ہے۔ دیکھا جائے تو یہ وہی نفس ہے جو ابتدا میں نفسِ امارہ تھا مگر صفائی ہوتی چلی گئی تو اس کی صفات بھی تبدیل ہوتی چلی گئیں۔چنانچہ نفسِ مُلْهِمَہ کے مقام پر نفس کے اندر قناعت، حلم، تواضع و انکساری، سخاوت، صبر و تحمل اور اخلاص؛ الغرض تمام صفاتِ محمودہ اور خصائلِ حمیدہ غالب آتے چلے جاتے ہیں۔ جب نفس اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کے اوپر ملائکہ الہام کرنے لگتے ہیں، حالانکہ جب یہ امّارہ تھا تو اُس پر شیاطین الہام کرتے تھے۔ لوّامہ کے مقام پر اس کی آنکھ کھل گئی اور اسے سمجھ آنے لگی، طبیعت برائی سے اکتاکر ملامت کرنے لگی۔ یہی نفس اب اتنا پاکیزہ ہوگیا کہ ملائکہ اسے الہام کرنے لگے اور اب نفس کا محل بدل گیا۔

اگلے مقام تک پہنچنے سے قبل اس کے اندر ملکوتی خوبیاں آچکی ہوتی ہیں۔ نفس ملہمہ اپنی شفافیت، نورانیت، اجلے پن اور نیک خصلتوں میں عالم ملکوت کی سی فضا کا حامل ہو جاتا ہے، جس سے ملائکہ مانوس ہوتے ہیں۔ وہ مومن کے نفسِ ملہمہ کے مقام کو اپنا وطن خیال کرنے لگتے ہیں۔

نفسِ مطمئنہ

نفسِ ملہمہ سے آگے نفس مطمئنہ کا مقام ہے۔ اس کے بارے ارشاد فرمایا گیا ہے:

یٰٓـاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ۔[الفجر: 27]

اے اطمینان پا جانے والے نفس۔

جب نفس اس مقام پر پہنچتا ہے تو وہ قلب کی جگہ لے لیتا ہے، یعنی اُس کا مرتبہ قلب کا ہو جاتا ہے۔ دل کا جو روحانی مقام تھا وہ نفسِ مطمئنہ کو مل جاتا ہے اور قلب ترقی کر کے مقامِ روح پر چلا جاتا ہے۔ یہ لطائف کی معراج ہوتی ہے۔

نفس مطمئنہ کے مقام پر ملکوتی اور جبروتی انوار کا اثر و رسوخ ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر کسبی ریاضات و مجاہدات بھی داخل ہوتے ہیں اور وہبِ الٰہیہ بھی، لیکن یہاں ریاضت سے بڑھ کر وہب کا نزول زیادہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر نفس کے اندر عفو و درگزر آ جاتا ہے اور نفس بخشش، عطا، سخاوت، توکل، شکرمندی، عبادت گزاری، تحمل، برداشت اور بردباری کا محل بن جاتا ہے۔ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے امر پر راضی رہتا ہے۔ نفسِ مطمئنہ کا رنگ سفید (white) ہے۔

پہلے نفس اپنے اندر ہی ارتقاء پذیر تھا۔ جب یہ قلب کے مقام پر فائز ہوتا ہے تو اسے نیکی و تقویٰ پر استقرار، استقامت اور اطمینان مل جاتا ہے۔ اس پر الہامات کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں، جن کی ابتدا نفسِ ملہمہ کی حالت میں اِلہاماتِ صالحہ کی شکل میں ہو چکی تھی۔

پہلے مراحل میں فجور کا الہام ہوتا تھا، مگر اب تقویٰ کا الہام ہوتا ہے۔ اب نفسِ مطمئنہ کے مقام پر اسے استقرار ملتا ہے تو عالم ملکوت میں الہامات کے دروازے کھل جاتے ہیں اور بہت سے علوم و معارف اسے بطریقِ الہام ملنے لگتے ہیں۔ یہ مقامِ ولایت ہے، یہاں پہنچ کر وہ ولی اللہ کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔

یہ اس بات کی وضاحت ہے کہ قلب پر کس طرح الہام ہوتا ہے۔ بعض علماء نے کہا کہ ’قلب پر الہام ہوتا ہے‘ یہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ جسے وہ قلب کہہ رہے ہیں، درحقیقت وہ نفس تھا۔ اب وہ نفس خود مقامِ قلب پر آچکا ہے۔ اب خواہ اسے یہ کہہ لیں کہ الہام نفس پر ہو رہا ہے، خواہ یہ کہہ دیں کہ الہام قلب پر ہوا، اب وہ ایک ہی چیز ہو جاتی ہے۔ وہ اب قلب کے تخت پر بیٹھا ہوا ہے اور اس کا نفس، نفسِ مطمئنہ ہوگیا ہے۔

یہ اطمینان دراصل نفس مطمئنہ کا اطمینان ہے۔ ’نفس مطمئنہ‘ ولایت صغریٰ کا مقام ہے۔ اس کے تحقق سے ’فنا فی الرسول ﷺ ‘ کا مقام نصیب ہوتا ہے۔ اس کی حقیقت اس طرح ہے کہ جب کسی شخص میں عطاء الٰہی سے خلقی و وہبی طور پر یا ریاضات و مجاہدات سے کسبی طور پر ملکوتی قوت کا زور ہوتا ہے تو اس کے مقابلے میں بہیمی قوت بالکل زیر ہو جاتی ہے۔ قلب کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ذکر الٰہی سے اطمینان پاجاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِکْرِ اللهِ ط اَ لَا بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔[الرعد: 28]

جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔

نفس جب ’قلب‘ کے مقام پر آتا ہے تو قلب پہلے ہی ذاکر یعنی یاد الٰہی میں شاغل ہوتا ہے کیونکہ وہ امارہ کے دائرہ سے نکل کر ’لوامہ‘ اور ’ملہمہ‘ کے مقامات سے بھی ترقی کر چکا ہے۔ سو جیسے جیسے قلب یادِ الٰہی سے سیراب ہوتا ہے اس کا تمام تر اطمینان ’نفس‘ کی مستقل حالت بنتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نفس بھی ’قلب‘ میں تبدیل ہو کر ’نفس مطمئنہ‘ ہو جاتا ہے اور جہاں تک قلب کا تعلق ہے تو اسے ’مقامِ روح‘ مل جاتا ہے۔

قلب کے روح بن جانے سے اسے تزکیہ نفس کے لئے غیر معمولی مجاہدات و ریاضات کی حاجت نہیں رہتی۔ وہ معمول کی طاعات و عبادات سے بھی اپنا تزکیہ و مقام بحال اور برقرار رکھ سکتا ہے، البتہ وہ اگلے درجات کے لئے ریاضات جاری رکھتا ہے۔

روح چونکہ ’امر الٰہی سے ہے‘ (الإسراء، 17: 85)، اس لئے قلب، روح بن کر ہمہ وقت امر الٰہی کے تابع اور اس سے فیض یاب ہوتا رہتا ہے۔ اب اسے ’قبض‘ کے بغیر ہی ’بسط‘ کی کیفیت میسر آجاتی ہے۔ وہ قلق و اضطراب کے بغیر ہی الفت و محبت کے چشموں سے سیراب ہوتا رہتا ہے اور بے ہوش ہوئے بغیر حالت ’وجد‘ سے بہرہ یاب ہوتا ہے، جب اس کا قلب ترقی کر کے ’مقامِ روح‘ پر آتا ہے تو اس کی ’روح‘ ترقی کر کے مقام ’سر‘ پر فائز ہو جاتی ہے۔

حاصلِ کلام یہ ہوا کہ نفس قلب بن جاتا ہے، قلب روح بن جاتی ہے اور روح سر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کے باعث اس پر عالم غیب کے علوم و معارف اور اسرار کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اسے مروج اور متداول طریقوں سے ہٹ کر علوم و معارف، اسرار و رموز اور حقائق و لطائف کا ادراک اور حصول ہونے لگتا ہے۔ یہ کتابوں کی مدد سے، نہ ظاہری فہم و فراست اور تعلق و تدبر کے طریقہ سے، نہ کشف کے طور پر اور نہ ہاتف غیبی کی آواز سے بلکہ اس کی روح اَز خود مقامِ سر سے اسرار و معارف کو اس کے دل میں منتقل کرتی رہتی ہے۔ یہ انوار و اسرار کا ایک غیر مرئی اور غیر محسوس دروازہ ہے جس کے کھل جانے سے وہ شخص ’علوم لدنیہ‘ کا حامل ہو جاتا ہے۔ اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں وہ بھی عین ’صراط مستقیم‘ کے مطابق ہوتے ہیں۔ اعمال خودبخود صالح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کلمات مبارک ہوتے ہیں اور دعوات مستجاب ہوتی ہیں۔ یہی ولایتِ صغریٰ ہے۔ صرف یہاں خوارقِ عادات کی صورت میں کرامات کا ظہور نہیں ہوتا مگر وہ شخص صاحبِ کرامت ہوتا ہے۔

اس کی صفات میں عفو و درگزر، بخشش و عطاء، توکل، حلم و بردباری، عبادت گزاری، شکر اور رضا خاص طور پر نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔

نفسِ راضیہ

بعض مشائخ و صوفیاء نے نفسِ مطمئنہ کے بعد بقیہ نفوس کا الگ سے ذکر نہیں کیا۔ ان کے نزدیک راضیہ، مرضیہ اور صافیہ و کاملہ سب نفسِ مطمئنہ کی ہی اعلی حالتیں اور صفات ہیں۔ چونکہ ان کے خواص اور احوال سابقہ نفوس کی طرح بدلتے چلے جاتے ہیں، اس لئے انہیں بھی الگ اقسامِ نفس کے طورپر شمار کیا گیا ہے۔ یوں تو بعض صوفیاء نے نفس کی مختلف اقسام کی بجائے مطلقا ’نفس‘ کو ایک ہی مانا ہے۔ انہوں نے اس کی حقیقت و ماہیت پر گفتگو کی ہے اور اسی کی صفات و احوال پر کلام کیا ہے حتی کہ انہوں نے نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ کو بھی اسی ایک ہی نفس کی مختلف بری اور اچھی حالتوں یا خصلتوں سے تعبیر کیا ہے۔ انہیں الگ اقسام نہیں سمجھا۔

’’نفس راضیہ‘‘ یہ وہ نفس ہے جس میں باری تعالی کے جملہ فیصلوں پر اور اس کی مشیت کے تمام احکام پر راضی برضا اور خوش ہونے کا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ظاہری طور پر معاملات موافق ہوں یا مخالف، خواہ نقصان ہو یا نفع، سکھ نمایاں ہو رہا ہو یاتکلیف کا پہلو واضح ہو مگر یہ نفس اسے امرِ الٰہی سمجھ کر نہ صرف قبول کر لیتا ہے بلکہ اپنے اندر مسرت و فرحت کی کیفیت کو بدستور قائم رکھتا ہے۔ پس اس کے ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے راضی رہنے کے باعث اسے ’نفس مرضیہ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا ذکر نفس مطمئنہ کے ساتھ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً۔[الفجر: 28]

تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔

حضرت زکریا علیہ السلام نے جب بارگاہ الٰہی میں بیٹے کے لئے دعا کی تو ساتھ ہی عرض کیا:

یَّرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا۔[مریم: 6]

جو (آسمانی نعمت میں) میرا (بھی) وارث بنے اور یعقوب ( علیہ السلام ) کی اولاد (کے سلسلهِٔ نبوت) کا (بھی) وارث ہو اور اے میرے رب! تو (بھی) اسے اپنی رضا کا حامل بنا لے۔

اس کی نمایاں صفات ذکر و فکر، زہد و ورع، ریاضت و مجاہدہ، تقوی و پرہیزگاری، عشق الٰہی، ترکِ ماسوی اللہ، وفا اور کرامات ہیں۔

نفسِ مرضیہ

یہ چھٹا نفس ہے اور یہی نفس کا سب سے کامل درجہ ہے۔ جب نفس انسانی ہر حال میں اللہ سے راضی رہنے لگتا ہے اور اس کے مقام رضا میں لغزش یا تزلزل نہیں آتا تو مقام کی یہی استقامت اسے ’مرضیہ‘ کے درجہ پر فائز کر دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے اب اللہ اس سے اس قدر راضی ہے کہ وہ جو کہے گا وہی کر دیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بندہ کے نفس کو اللہ سے راضی ہونے کی توفیق بھی اس وقت نصیب ہوتی ہے جب وہ اللہ سے راضی ہو جاتا ہے۔ گویا نفس کا اللہ سے راضی ہونا ’مقام راضیہ‘ ہے اور اللہ کا اس نفس انسان سے راضی ہونا ’مقام مرضیہ‘ ہے اور یہ دونوں باہم لازم و ملزوم ہیں۔ ’مرضیہ‘ کا بیان بیعت رضوان میں شامل صحابہ کرام l کی شان میں آیا ہے۔ قرآن مجید فرماتا ہے:

لَقَدْ رَضِیَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ۔[الفتح: 18]

بے شک اللہ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے۔

اسی طرح رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ میں مقام مرضیہ اور مقام راضیہ دونوں کا ذکر اکٹھا ہے۔ اس آیت کریمہ میں جہاں نفسِ مطمئنہ کو خطاب فرمایا گیا ہے اس ترتیب سے دونوں مقامات کا ذکر ہے کہ مرضیہ، راضیہ کے بعد آیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

یٰٓـاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ،ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً۔[الفجر:27-28]

اے اطمینان پا جانے والے نفس۔ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔

سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے مقام مرضیہ کا بیان قرآن مجید میں یوں آیا ہے:

وَکَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّکٰوةِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا۔[مریم: 55]

اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضور مقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی ان کا رب ان سے راضی تھا)۔

اس کی صفات میں سے نرمی، لطف و کرم، جملہ اخلاق حسنہ، قربِ الٰہی اور متابعت محمدی ﷺ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ پچھلے پاکیزہ خواص و صفات جو پہلے مبارک نفوس کے ذریعے حاصل ہوئے تھے اگلے مقام میں نہ صرف برقرار رہیں گے بلکہ ان میں دوام اور ترقی پیدا ہو جائے گی۔

نفسِ کاملہ

یہ ساتواں نفس ہے اور یہی کاملیت کا آخری مقام ہے۔ درج ذیل آیات کریمہ میں اسی مقامِ نفس کی طرف اشارہ ہے:

یٰٓـاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ،ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً۔[الفجر:27-28]

اے اطمینان پا جانے والے نفس۔ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔ پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا۔

عِبٰـدِیْ (میرے [کامل] بندوں) میں داخل ہونے کا حکم نفس کو شانِ کاملیت سے سرفراز کر رہا ہے اور جَنَّتِیْ (میری جنت) میں بسیرا کرنے کا حکم اسے اعلیٰ مقام سے بہرہ یاب کر رہا ہے۔

نفسِ کاملہ کا ذکر کرتے ہوئے جنت کی اقسام بیان کرچکنے کے بعد اب اس نفس کی صفات کا ذکر کریں گے کہ اس نفس کی صفات میں گوشہ نشینی، خلوت و عزلت، عبادت، مفارقت عن الغیر، خاموشی (صمت و سکوت)، سچائی، مددگاری، ایفائے عہد، طاعت و فرمانبرداری، حق اور نسبتِ عہدیت اور نسبتِ محمدیت دونوں میں کمال درجہ پایا جانا ہے۔

لطائفِ روحانیہ کیا ہیں؟

جب نفسِ مطمئنہ قلب کا مقام سنبھالتا ہے تو پھر اس میں مختلف روحانی دروازے کھل جاتے ہیں، جنہیں تصوف کی اصطلاح میں لطائف کہتے ہیں۔انسان کے جسم میں محلِ نور کو لطیفہ کہتے ہیں اور اس کو نفسِ ناطقہ بھی کہتے ہیں یہ وہ جوہر ہے جو مادہ سے خالی ہوتا ہے۔ان لطائف کا اصلی مقام عرش کے اوپر ہے لیکن جسمِ انسانی کے ساتھ ان کا ایک لطیف تعلق قائم ہے جسکی تطہیر سے سالکین کو عالمِ امر میں روحانی سیر نصیب ہوتی ہے۔ صوفیائے محققین کے نزدیک لطائف کے انوار میں جو اختلاف ہے وہ مکشوفات کے اعتبار سے اختلاف ہے لہٰذا لطائف کے انوار کو رنگوں کے ساتھ مخصوص و مقیّد جاننا لازمی نہیں کیونکہ مقصود، دائمی ملکہ ذکر ہے نہ کہ رنگ و نُور، البتہ اگر لطائف کے رنگ کبھی ظاہر بھی ہوں تو مضائقہ نہیں۔ ان لطائف کی درج ذیل اقسام ہیں:

۔ لطیفۂ نفس

۔ لطیفۂ قلب

۔ لطیفہء روح

۔ لطیفۂ سر

۔ لطیفۂ خفی

۔ لطیفۂ ا َخفی

کئی عرفاء لطیفۂ عقلیہ کو شمار کرتے ہوئے لطائفِ سبعہ کہتے ہیں۔ کئی لطائفِ خمسہ کہتے ہیں اور لطیفۂ عقل اور لطیفۂ نفس کو شامل نہیں کرتے۔ اگر لطیفۂ نفس کو شامل کر لیں تو لطائفِ ستہ کہتے ہیں۔ ہر جوہر کی اپنی حقیقت اور دائرہ کار ہے، تقسیم جیسے مرضی کر لیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

لطیفۂ نفس

جب تک نفس،نفس ِ امّارہ ہوتا ہے اور لطیفہ نہیں بنا ہوتا، اس کے اندر عالمِ ناسوت (مادّی دنیا) کا مزاج ہوتا ہے۔ جب وہ تزکیہ، تصفیہ، تجلیہ کے ذریعے صفائی اور اُجلے پن کا حامل ہو اور غلاظت و کثافت سے پاک ہو کر ترقی کر کے لطیفۂ نفسیہ بن جائے تو اسے عالمِ ملکوت (آسمانی دنیا جہاں فرشتے رہتے ہیں) کا فیض ملنے لگ جاتا ہے۔

لطیفۂ قلب

لطیفہِ قلب کا مقام انسان کے جسم میں بائیں پستان کے نیچے دو ۲ انگشت کے فاصلے پر مائل بہ پہلو ہے اسکی فناء قلب پر اللہ تعالیٰ کی تجلی فعل کا ظہور ہے اسکی علامت ذکر کے وقت ماسویٰ اللہ کا نسیان اور ذاتِ حق کیساتھ محوّیت ہے (اگرچہ تھوڑی دیر کیلئے ہو) اسکی تاثیر رفعِ غفلت اور دفعِ شہوت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اسکا نور زرد ہے۔

اس مرحلے پر نفس ترقی کر کے کثافتوں اور غلاظتوں سے مزکی (purify) ہو کر عالمِ ملکوت سے مل جاتا ہے۔ اسے وہاں سے فیض ملتا ہے اور اس مقام پر عالم عرش کی نیکیاں، خصائل اور انوار لطیفۂ قلب کو مزید مزین کرتے ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اقدس ہے:

قَلْبُ الْمُوْمِنِ عَرْشُ اللهِ۔                  [ابن عربی، التفسیر، 1: 251؛ 2: 262]

قلبِ مومن عرشِ الٰہی کی مانند ہو جاتا ہے (یعنی اس پر انوارِ الٰہیہ کا نزول ہوتا ہے)۔

نفس نے جب قلب کی جگہ لے لی تو نفس، قلب میں بدل گیا اور قلب، روح میں تبدیل ہوگیا۔ اب اسے عالمِ جبروت کا فیض ملتا ہے۔ اسے مثالی دنیا میں عالمِ عرش کا فیض کہتے ہیں کیونکہ عرش کا فیض اس سے جڑ جاتا ہے۔

لطیفۂ قلب

لطیفہِ قلب کا مقام انسان کے جسم میں بائیں پستان کے نیچے دو ۲ انگشت کے فاصلے پر مائل بہ پہلو ہے اسکی فناء قلب پر اللہ تعالیٰ کی تجلی فعل کا ظہور ہے اسکی علامت ذکر کے وقت ماسویٰ اللہ کا نسیان اور ذاتِ حق کیساتھ محوّیت ہے (اگرچہ تھوڑی دیر کیلئے ہو) اسکی تاثیر رفعِ غفلت اور دفعِ شہوت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اسکا نور زرد ہے۔

اس مرحلے پر نفس ترقی کر کے کثافتوں اور غلاظتوں سے مزکی (purify) ہو کر عالمِ ملکوت سے مل جاتا ہے۔ اسے وہاں سے فیض ملتا ہے اور اس مقام پر عالم عرش کی نیکیاں، خصائل اور انوار لطیفۂ قلب کو مزید مزین کرتے ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اقدس ہے:

قَلْبُ الْمُوْمِنِ عَرْشُ اللهِ۔                  [ابن عربی، التفسیر، 1: 251؛ 2: 262]

قلبِ مومن عرشِ الٰہی کی مانند ہو جاتا ہے (یعنی اس پر انوارِ الٰہیہ کا نزول ہوتا ہے)۔

نفس نے جب قلب کی جگہ لے لی تو نفس، قلب میں بدل گیا اور قلب، روح میں تبدیل ہوگیا۔ اب اسے عالمِ جبروت کا فیض ملتا ہے۔ اسے مثالی دنیا میں عالمِ عرش کا فیض کہتے ہیں کیونکہ عرش کا فیض اس سے جڑ جاتا ہے۔

لطیفۂ روح

اس کا مقام انسان کے سینے میں دائیں پستان کے نیچے دو انگشت کے فاصلے پر مائل بہ پہلو ہے۔ اسکی فناء روح پر اللہ تعالیٰ کی تجلی صفات کا ظہور ہے۔ اسکی علامت ذکر کے وقت کیفیاتِ ذکر (قلبی و روحی) میں اضافہ و غلبہ ہے۔ اسکی تاثیر غصّہ و غضب کی کیفیّت میں اعتدال اور طبیّعت میں اصلاح و سکون کی کیفیت کا ظہور ہے اُسکا نُور سرخ ہے۔جب لطیفۂ قلب ترقی کر کے لطیفۂ روح کے مقام پر پہنچتا ہے تو بندے پر کرسی کے فیض والا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس کا ذکر آیت الکرسی میں یوں کیا گیا ہے:

وَسِعَ کُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۔                  [البقرة: 255]

اس کی کرسیِ (سلطنت و قدرت) تمام آسمانوں اور زمین پر محیط ہے۔

صوفیاء کے ہاں عالمِ مثال یعنی مثالی زبان میں اسے استعارتاً کرسی کا فیض کہتے ہیں اور یہ عالمِ لاہوت ہے۔

لطیفۂ سر

اس کا مقام انسان کے سینے میں بائیں پستان کے برابر دو انگشت کے فاصلے پر مائل بہ وسطِ سینہ ہے اس کی فناء لطیفہِ سرّ پر اللہ تعالیٰ کی صفات کے شیونات و اعتبارات کا ظہور ہے۔اسکی علامت  سابقہ لطیفوں کی طرح اس میں ذکر کا جاری ہونا اور کیفیات میں ترقی رونما ہونا ہے۔ (یاد رہے کہ یہ مشاہدہ اور دیدار کا مقام ہے) اس کی تاثیر طمع اور حرص کے خاتمے نیز دینی اُمور کے معاملے میں بلا تکلّف مال خرچ کرنے اور فکرِ آخرت کے جذبات کی بیداری سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس کا نور سفید ہے۔

بندے پر جب لطیفہء سِر کھلتا ہے تو وہ لوح کے فیض کے ساتھ متعلق ہو جاتا ہے یعنی بندے کو لوح کے فیض کو حاصل کرنے کے قابل بنا دیتا ہے۔ لوح مرتبۂ علم ہے۔

لطیفۂ خفی

اس کا مقام انسان کے سینے میں دائیں پستان کے برابر دو ۲ انگشت کے فاصلے پر مائل بوسطِ سینہ ہے۔ اسکی فنا صفاتِ سلبیہ تنزیھیہ کا ظہور ہے۔ اسکی علامت اس میں ذِکر کا جاری ہونا اور عجیب و غریب احوال کا ظھور ہے۔ اسکی تاثیر حسد و بخل اور کینہ و غیبت جیسی امراض سے مکمل نجات حاصل ہوجانے سے ظاہر ہوتی ہے۔ اسکا نور سیاہ ہے۔لطیفۂ سر  پر مزید ترقی کرتے ہوئے جب لطیفۂ خفی کھلتا ہے تو قلم کا فیض ملتا ہے۔ قلم علمِ الٰہی کا مرتبہ ہے۔ یہاں اُس میں قلم کا فیض لینے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔

لطیفۂ اخفیہ

اس کا مقام انسان کے جسم میں وسطِ سینہ ہے۔ اسکی فنا مرتبہ تنزیہہ اور مرتبہِ احدیّتِ مجردہ کے درمیان ایک برزخی مرتبے کے ظھور و شہود سے وابستہ ہے اور یہ ولایتِ محمد علیٰ صاحبہَا الصلوات کا مقام ہے اس کی علامت اس میں بلاتکلف ذکر کا جاری ہونا اور قربِ ذات کا احساس و شہود ہے اسکی تاثیر تکبر، فخر و غرور اور خودپسندی جیسی مُہلک روحانی امراض سے رہائی پانے اور مکمل حضور و اطمینان کے حصول سے ظہور پذیر ہوتی ہے اسکا نُور سبز ہے۔

لطیفۂ اخفیہ کو دوسری زبان میں لطیفہ اَخفیٰ کہتے ہیں جو صوفیا کے ہاں تصوف کی جدید اصطلاح ہے۔ جب یہ لطیفہ کھل جاتا ہے تو وہ جملہ تجلیات الٰہیہ کا فیض لینے کے قابل ہو جاتا ہے اور اس کی طبیعت میں مکمل اعتدال آ جاتا ہے۔ کوئی بھی دوسری چیز اس پر غالب نہیں رہتی۔ لطیفۂ اَخفیٰ کے حامل پر اس کے احوال اور اعمال کے مطابق مراتب کھلتے چلے جاتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید نے بیان کیا ہے:

اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ ج وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ۔[النور: 26]

ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے (مخصوص) ہیں اور پلید مرد پلید عورتوں کے لیے ہیں، اور (اسی طرح) پاک و طیب عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے (مخصوص) ہیں اور پاک و طیب مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں (سو تم رسول اللہ ﷺ کی پاکیزگی و طہارت کو دیکھ کر خود سوچ لیتے کہ اللہ نے ان کے لیے زوجہ بھی کس قدر پاکیزہ و طیب بنائی ہوگی)۔

یعنی پاک لوگوں کے لیے پاک خصائل و انعامات آجاتے ہیں۔ اس لطیفہ کے حامل جتنے طیب اور پاکیزہ ہوتے چلے جاتے ہیں اتنی ہی ان کی صفات و کیفیات پاک سے پاک تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اُس مقام میں بندہ جو بھی عمل کرتا ہے اُس کا اثر اسے مزید آگے پہنچاتا ہے۔ اس لئے فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗo وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۔[الزلزال: 7-8]

تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے (بھی) دیکھ لے گا۔

وحی اور وجدان میں فرق

یاد رکھ لیں ! وحی کوئی ایسا ملکہ نہیں ہے جو انسان کے اندر سے حواسِ خمسہ، وجدان، فطریات، تجربیات اور بدیہیات کی طرح پھوٹتا ہو۔ بعض اَہلِ مغرب اسے وجدان (intuition) کے ساتھ خلط ملط کر دیتے ہیں جبکہ وحی اور چیز ہے، وجدان کچھ اور کیفیت ہے۔ وجدان انسان کے باطن سے پھوٹتا ہے جبکہ وحی (revelation) اندر سے نہیں پھوٹتی۔قرآن مجید نے وحی کے بارے میں واضح کر دیا ہے:

اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُ۔[الشوری: 51]

یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے۔

اس سلسلے میں سب سے بڑی دلیلِ شرعی حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس اور آپ ﷺ کی احادیثِ صحیحہ ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

جب آفتاب ڈھلا تو حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور پھر فرمایا: اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات و حادثات ہیں، پھر فرمایا: جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے تو وہ پوچھے، اللہ کی قسم! میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ جلال کے سبب بار بار یہ اعلان فرما رہے تھے کہ کوئی سوال کرو، مجھ سے (جو چاہو) پوچھ لو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: دوزخ میں۔ پھر حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیرا باپ حذافہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ بار بار فرماتے رہے مجھ سے سوال کرو، مجھ سے سوال کرو۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گزار ہوئے: ہم الله تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفی ﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہیں (اور ہمیں کچھ نہیں پوچھنا)۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گزارش کی تو حضور نبی اکرم ﷺ خاموش ہوگئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ابھی ابھی اس دیوار کے سامنے مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آج کی طرح میں نے خیر اور شر کو کبھی نہیں دیکھا۔

[بخاري، الصحیح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب ما یکره من کثرة السؤال وتکلف ما لایعنیه، 6: 2660، رقم: 6864]

اِس حدیثِ مبارک میں خاتم المرسلین ﷺ نے قیامت تک آنے والے جو واقعات بیان فرمائے ان حقائق کا وحی سے تعلق نہیں ہے۔ اس موقع پر ایسا نہیں ہوا کہ جبریل امین وحی لے کر آئے اور آپ ﷺ ان کی اطلاع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بیان فرما رہے تھے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کا وحی جلی اتارنا (معاذ الله) حضور نبی اکرم ﷺ کے ماتحت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جس وقت چاہے وحی بھیجے، چاہے تو چالیس دن نازل نہ فرمائے۔ چاہے تو ایک ہفتہ بعد بھیجے اور چاہے تو اسی لمحے دوبارہ بھیج دے۔ وحی کا نازل فرمانا الله تعالیٰ کے امر کے تحت ہے۔ اللہ کا نبی اس امر کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ اسی لئے فرمانِ ربانی ہے:

فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُ۔[الشوریٰ: 51]

اللہ جب چاہتا ہے، جو چاہتا ہے وحی فرماتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے چاہنے پر تو معاذ اللہ کوئی قید نہیں لگ سکتی۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس حدیث مبارک میں آق ﷺ نے بغیر کسی پابندی یا بندش کے فرمایا کہ جو سوال کرنا چاہو، جس شے کی نسبت جو کچھ بھی تم پوچھو گے، میں اِسی جگہ تمہیں جواب دیتا رہوں گا۔ حتیٰ کہ آپ ﷺ جلال میں آکر فرماتے رہے کہ پوچھ لو! پوچھ لو! آپ ﷺ کی اسی کیفیت کو دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رونے لگے۔

اس موضوع پر اس حدیث کو متفق علیہ ہونے کے سبب منتخب کیا تاکہ کسی کو تردد نہ ہو اور کوئی حدیث کے ضعف اور صحت پر کلام بھی نہ کر سکے۔

یہاں بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال بھی آسکتا ہے کہ شاید اس موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان اَحکامِ شریعت، اَحکامِ دین یا آخرت کے امور کے بارے میں ہوگا کہ اس بابت جو چاہو پوچھ لو کیونکہ بنیادی طور پر پیغمبر اسی لئے مبعوث ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے! یہاں پر یہ سوچنا غلط ہوگا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو حضور نبی اکرم ﷺ فرما دیتے کہ اُمورِ آخرت، اَحکامِ دین یا مسائلِ شریعت سے متعلق جو چاہو، وہ پوچھ لو۔ آق ﷺ اس ضمن میں شرعی اَحکام کا تعین فرما دیتے لیکن آپ ﷺ نے ایسا نہیں فرمای، بلکہ خاتم الانبیاء ﷺ نے واضح ارشاد فرمایا کہ کوئی بھی شخص جس چیز کے بارے میں جو پوچھنا چاہے، وہ پوچھ لے۔ آق ﷺ کا یہ فرمان عموم پر تھ، اس کو مقید کرنا کہ احکام شریعت اور مسائل شریعت کی بات ہو رہی تھی، یہ ناجائز ہے۔ اسی حدیث میں اس پر دلیل بھی موجود ہے جو اس گمان کو رد کر تی نظر آتی ہے۔

آپ ﷺ کے سوال کرنے پر دو لوگ اٹھے۔ اُنہوں نے سوال کیے اور آپ ﷺ نے انہیں جواب دیے۔ اُن دونوں سوالوں کا تعلق شریعت کے احکام اور مسائل سے نہیں تھا۔ اگر صرف احکامِ شریعت کے بارے میں استفسار کرنے کی پابندی ہوتی تو آپ ﷺ فرما دیتے کہ تم شرعی مسائل کے علاوہ دوسرے سوالات کیوں پوچھ رہے ہو؟

ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مرنے کے بعد میرا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مرنے کے بعد تیرا ٹھکانہ جہنم میں ہوگا۔ آپ ﷺ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ غیر متعلقہ سوال کیوں پوچھ رہے ہو؟ بلکہ براہ راست فرمایا: تمہارا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔

اب اس ذریعۂ علم کا تعلق نہ توقرآنی علوم سے ہے اور نہ ہی اس وحی سے جسے حضرت جبریل علیہ السلام لے کر آتے تھے۔ حقائق بتاتے ہیں کہ یہ کوئی اور ذریعۂ علم ہے جو حواس، عقل اور دماغ کے ذریعے نہیں آیا اورنہ ہی جبریل امین اور قرآن کے ذریعے آیا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نامی ایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول الله! میرا باپ کون ہے؟ ان کے بارے میں لوگ طعنہ زنی کرتے تھے کہ تمہارا نسب غلط ہے، تم کسی اور کے بیٹے ہو۔ آپ ﷺ نے اس کے سوال کو بھی رد نہیں فرمایا بلکہ ارشاد فرمایا: تمہارا باپ حذافہ ہی ہے۔

اس بات کا علم بھی پردئہ غیب کی بات ہے۔ آپ ﷺ کے پاس یہ علم بھی نہ کوئی قرآنی آیت کے ذریعے آی، نہ حواس کے ذریعے آیا اور نہ ہی عقل نے اسے ترتیب دیا۔ اس کا ذریعہ بھی کوئی اور ہے۔ اُس ذریعہ کو کشف اور الہام کہتے ہیں۔ پس یہ کشف اور الہام کے وجود کے اثبات پر دلیل ہے۔اسی مقام پر ایک دوسرے ذریعۂ علم کی بات کرتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جنت اور دوزخ میرے اوپر آشکار کر دی گئیں۔

صحابی کا نسب بتانے کا مطلب یہ تھا کہ صرف جنت اور دوزخ کی حد تک نہیں بلکہ کل عالم مادیات و حسیات، روحانیات و طبیعیات و مابعد الطبیعیات، کائنات کے تمام حقائق اور موجودات آپ ﷺ پر آشکار کر دیے گئے ہیں۔ یہ ذریعۂ کشف ہے۔

کشف و کرامت کا اِثبات

کرامت کے حوالے سے خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی خرقِ عادت واقعات رونما ہوئے ہیں۔ مثلا:

1۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے وقتِ وصال اپنی بیٹی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھ سے وارثت کے حوالے سے تین بہنوں کی بات کی جبکہ اس وقت فی الواقعہ وہ دو بہنیں تھیں۔ ام المومنین رضی اللہ عنھ کے استفسار پرا میر المومنین نے فرمایا کہ تمہاری تیسری بہن ابھی تمہاری دوسری والدہ کے بطن میں ہے۔ بطن کے اندر موجود بچے کی جنس کے متعلق معلوم ہو جانا یہ بھی ایک کشف ہے۔

[مالک، الموطأ، کتاب الأقضیة، باب ما لایجوز من النحل، 2: 752، رقم: 1438]

2۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مسجد نبوی کے منبر پر خطبہ جمعہ کے دوران ہزارہا میل دور کفار کے ساتھ برسرپیکار اسلامی فوج کے سپہ سالار حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو پہاڑوں کے پیچھے سے دشمن کے حملے سے خبردار کرتے ہوئے کہنا:

یَا سَارِيَ الْجَبَلَ، یَا سَارِيَ الْجَبَلَ۔               [أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 1: 269، رقم: 355]

اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لے، اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لے۔

یہ واقعہ بھی کشف کی ایک مثال تھا۔ اسی طرح ہرنبی کی امت میں ہر ولی سے کرامات رونما ہوتی ہیں اور یہ کرامات در حقیقت اُس نبی کے معجزہ کا تسلسل ہوتا ہے۔ (’صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور اَولیاء عظام کے مکاشفات‘ پر تفصیلی کلام باب نمبر 16 میں ملاحظہ فرمائیں۔)

کشف کا کمال

کشف کا مطلب، حجاب کا اُٹھ جانا ہے۔ مستقبل سے پردے اٹھ گئے اور ان کے لیے مستقبل بھی حال کی مانند عیاں ہوگیا۔ اسی طرح ماضی پر جو پردہ تھ، جب وہ بھی اٹھا تو ماضی بھی حال کی طرح واضح نظر آنے لگا۔ ماضی اور مستقبل کے سب زمانے ایک حال میں آکر سما گئے اور زمین و آسمان ہاتھ کی ہتھیلی کی مانند سامنے دکھائی دینے لگے۔

اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو ایسا کشف عطا فرما دیا کہ زمین و آسمان اور اول سے آخر تک ساری کائنات آپ ﷺ پر منکشف ہوگئی۔ پردے اٹھنے کے بعد آپ ﷺ ہر شے کو دیکھنے والے بن گئے۔ یہ امر بھی واضح رہے کہ آقائے دو جہاں ﷺ سییہ پردے اٹھا کر دوبارہ نہیں ڈالے گئے، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رفعِ حجابات ہوا۔

ادراک

ادراک لغت میں کسی بات کا معلوم کرلینا ،کسی شے کا پالینا اور بالغ ہونا ہے اور اصطلاح صوفیہ میں حق سبحانہ و تعالی کو پا لینا ،اس سے مل جانا ادراک کہلاتا ہے اس کی دو قسم ہیں ادراک بسیط او ادراک مرکب ادراک بسیط یا ادراک مطلق یہ ہے کہ سالک حق سبحانہ کی معرفت میں ایسا مستغرق و محو ہوجائے کہ اسے بندے اور مولا کی اضافی نسبت کا شعور باقی نہ رہے ۔(ہستی حقیقی کے ادراک کا ایک درجہ یا کیفیت)اور ادراک مرکب یہ ہے کہ سالک کو حق سبحانہ و تعالی کی معرفت بھی حاصل ہو اور اسی اضافی نسبت کا شعور بھی باقی رہے۔

مقام حیرت

یہ طریقت کا انتہائی مقام ہے جس کا مطلب انکشافِ حقیقت پر حیران ہوجانا ہے، حدیث میں ہے کہ سرورِ عالم ﷺاکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے اَللّٰھُمَّ زِدْنِی تَحَیُّراً فِیْکَ۔اے اللہ! مجھے اپنی ذات میں حیرت کی فراوانی عطا فرما۔

 صوفیاء نے اسکی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں۔حیرتِ مذمُوم اور حیرتِ محمود

حیرتِ مذموم:یہ حیرت جہالت کا نتیجہ ہوتی ہے اور تنزّلی کا سبب بنتی ہے۔

حیرتِ محمود:یہ حیرت علم کا نتیجہ ہوتی ہے اور عروج و ترقّی کا سبب بنتی ہے اہلِ طریقت نے اسکے مختلف مفہوم بیان فرمائے ہیں۔

سالک پر اچانک طاری ہونے والی کیفیت ہے جو قلبِ عارفین پر تامل و حضور اور غور و فکر کرنے کے وقت وارد ہوتی ہے اور انہیں تامل و حضور اور غور و فکر سے دُور لیجاتی ہے۔واسطی علیہ الرحمۃ کہتے ہیں اچانک طاری ہونے والی حیرت ، حیرت سے مُنہ پھیر کر حاصل ہونے والے سکون سے کہیں بُلند رُتبہ ہے۔سالک کا مرتبہِ احدیت میں محو ہونا اور تجلی اسم “ھو” کا مشاہدہ کرنا حیرت ہے۔

معرفت کی آخری منزل جہاں عارف مَا عَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ۔: ہم تیری معرفت کا حق نہیں ادا کرسکے جیسے کہ ادا کرنے کا حق تھا۔ کا اقرار کرتا ہے اور تجلیاتِ بلاکیف و جہت اور مشاہدہِ بلاحجاب کی وسعت سے بہرہ یاب ہوتا ہے صوفیاء اس مقام کو فنائے جذبہ سے بھی تعبیر فرماتے ہیں۔عارف کا پہلا درجہ حیرت سے شروع ہوتا ہے اور آخری درجہ بھی حیرت پر تمام ہوتا ہے پہلی حیرت شُکرِ نعمت میں ہوتی ہے اور دوسری حیرت فکرِ وصل میں ہوتی ہے

تمکین اور تلوین

تمکین کے معنی جگہ پکڑنا، قرار پکڑ نا،قدر و مرتبہ حاصل کرنا سالکین کے ایک مقام کا نام ہے اور اہل تصوف کی اصطلاح میں اس سے مراد قرب الہی میں دل کے اطمینان کے ساتھ کشف وحقیقت کا دائمی حاصل ہونے کا نام تمکین ہے۔اس میں سالک ابو الحال اور صاحب مقام ہوتا ہے۔حسب استعداد کسی حالت محمودہ پر استمرار نصیب ہوجاتا ہے اس کو تمکین کہتے ہیں اس وقت تمام اشیاء کے حقوق خوب ادا ہوتے ہیں۔ اسی کو توسط اور اعتدال بھی کہتے ہیں صاحب تمکین حق شناس ہوتا ہے اور واصل ہوتا ہے اس لیے قابل تقلید اور مقتدا بننے کا اہل ہوتا ہے۔تلوین احوال کا بدلنا تلوین کہلاتا ہے۔ اہل تصوف کی اصطلاح میں مقامات فقر میں سے ایک مقام کا نام ہے چونکہ مریدکی جب تربیت ہوتی ہے تو اس پر عجیب عجیب انکشافات ہوتے ہیں جس سے اس کے احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں اسی لئے اسے مغلوب الحال کہلاتا ہے۔ چونکہ یہ ناپختگی کی علامت ہوتی ہے اس لیے سالک اس سے پناہ مانگتا ہے اور تمکین کی تلاش میں رہتا ہے۔ لیکن تمکین کے لیے تلوین لازمی ہے جیسا کہ منزل کے لیے راستے کا قطع کرنا۔ چونکہ دوران تلوین مختلف احوال کا غلبہ ہوتا ہے اس لیے سالک گو کہ اس میں معذور ہے اور یہ لوازم طریق میں سے ہے اس لیے ماخوذ نہیں ہوتے۔ لیکن اس حال میں وہ قابل تقلید بھی نہیں ہوتے بلکہ ابھی راہ میں ہوتے ہیں اس لیے مشائخ بھی ان کے لیے تمکین کے انتظار میں ہوتے ہیں۔

تلوین کئی طرح کا ہوتا ہے اور اہل تصوف کی اصطلاح میں فکر کے ایک مقام کا نام ہے جاننا چاہیے کہ مشائخ طریقت کے نزدیک تلوین سے مراد سالک کے دل کا ان احوال میں پھرنا جو اس پر گزرتے ہیں اور بعض نے کہا کہ دل کابوجہ غیبت صفات نفس اور اس کے ظہور کے کشف احتجاج کے درمیان پھرنا حضرت شیخ قدس سرہ اپنی اصظلاحات میں فرماتے ہیں کہ اکثر مشائخ کے نزدیک تلوین ایک ناقص مقام ہے لیکن ہمارے نزدیک سب مقامات سے افضل اکمل ہے اور بندہ کا حال اس میں وہی ہے جیسا کہ حق سبحانہ و تعالی خود ہی فرماتے ہیں كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ۔

صاحبو!تلوین ارباب احوال کی صفت ہے اور تمکین ارباب حقائق کی صفت ہے۔

تجرید وتفرید

تجرید:  تصوف کی  اس اصطلاح کا مطلب ہے تعلقات منقطع کرنا اور دنیاوی لذتوں کو ظاہری طور پر چھوڑ دینا اور کسی بھی دنیاوی خواہشات کو باطنی طور پر جھٹلانا۔ تجرید کے لغوی معنی ہیں:کسی بھی قسم کی تراش خراش اور تصنع سے پاک ہونا، کسی بھی قسم کی زیادتی سے چھٹکارا پانا، ساکن اور پر سکون ہونا، روشن خیال ہونا اور پردے کے پیچھے سے باہر آنا، ہر قسم کے بیرونی خولوں سے نکلنا ،اصل مراد تنہائی اختیار کرنا ہے۔

تفرید ’فرد‘ سے مشتق ہے فرد کے معنی واحد کے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں طالب دوئی سے نکل کر وحدت میں قدم رکھتا ہے۔ بظاہر وہ عام لوگوں کی طرح رہتا ہے اور ان سے تعلق رکھتا ہے لیکن درحقیقت وہ مقام فردیت اور ربوبیت میں غرق ہوتا ہے۔

 صوفیاء نے ان دونوں اصطلاحات کی تعریف مختلف طریقوں سے کی ہے، جن میں شامل ہیں: تجرید، جدائی، اور توحید ایک ہی معنی کے لیے مختلف الفاظ ہیں، اور جب دل انسانی گندگی سے پاک ہو جاتا ہے تو بندہ تجرید تک پہنچ جاتا ہے ظاہری صورت یہ ہے کہ انسان مادیت پسندی کو ترک کر دے اور باطنی تجرید یہ ہے کہ وہ تجرید کے عمل کے بدلے میں کچھ نہ مانگے، کیونکہ وہ اس فعل کے بدلے میں کچھ مانگتا ہے، وہ تاجر ہے اور اس درجہ کو نہیں پہنچا۔ وہ اختلاط نہیں کرتا۔

عام فہم زبان میں تجرید سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے کسی بھی عمل میں دنیا و آخرت کی اغراض کو مدنظر نہ رکھے یعنی اس کے کسی فعل میں نہ کوئی دنیاوی غرض ہو اور نہ کوئی اُخروی غرض ہو، عظمت ِالٰہی سے اسے جو کشف حاصل ہو وہ اسے اللہ کی بندگی اور اطاعت میں صَرف کر دے اورتفرید کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے اعمال کو اپنا کمال نہ سمجھے، یہ نہ سوچے کہ جو کچھ اس نے کیا ہے وہ اس کے نفس کی تحریک و ترغیب کا حاصل ہے بلکہ اسے اللہ کا احسان سمجھے۔یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ تجرید اور تفرید اختیاری نہیں ہیں بلکہ مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ کی عطا ہیں یعنی کوئی خود سے ان مقامات کی گرد تک بھی نہیں پہنچ سکتا جب تک مرشد کامل اکمل کی نظر ِ کرم نہ ہو۔ تجرید میں طالب فنا فی اللہ کے مراحل طے کر رہا ہوتا ہے اور اس حالت میں اکثر اوقات طالب عام لوگوں کی نظر میں مجنوں، پاگل یا دیوانہ ہوتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت اللہ کے مشاہدہ میں ہوتا ہے اور اس کی خواہش و رضا پر عمل پیرا ہوتا ہے۔

مبتدی ومنتہی

مبتدی:وہ شخص جو ابھی بالکل آغاز میں ہو ،نوآموز شروع کرنے والا ہو،تصوف میں سیر  الی اللہ کرنے والوں کے راستوں کو پوری قوت عزم کے ساتھ طے کرنے کے عمل کو شروع کرنے والے کو مبتدی کہتے ہیں کیونکہ وہ ان راستوں کے آداب کو ملحوظ رکھتا ہے اور خدمت کے جذبے کے ساتھ ان راستوں کے آغاز و انجام سے باخبر رکھنے والے سے سیکھنے کے لیے خود کو وقف کر دیتا ہے۔

منتہی:وہ شخص جو علم کی تحصیل پوری کرچکا ہو، انتہا کو پہنچنے والا۔حضرت مجدد الف ثانی نے مبتدی اور منتہی کا فرق چار طرح بیان فرمایا ہے ہے۔

اول یہ کہ مبتدی بخلاف منتہی کے مخلوق کی طرح دنیا میں پھنسا ہوا ہے۔

دوم مخلوق کی طرف متوجہ ہونا منتہی کے لئے غیر اختیاری بغیر رغبت کے صرف رضائے حق کی وجہ سے ہے اور مبتدی میں مخلوق کی طرف رجوع ہونا ذاتی اغراض اور اپنی رغبت سے اور اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر ہے۔

سوم مبتدی کو خلق سے روگردانی کر کے حق تعالی کی طرف متوجہ ہونا آسان ہے اور منتہی کے لئے خلق سے روگردانی کرنا محال ہے اور خلق کی طرف متوجہ رہنا اس کے مقام کے لئے لازمی ہے۔

چہارم یہ کہ مبتدی صاحب حجاب ہوتا ہے اور منتہی سےحجابات دور ہو جاتے ہیں ۔

فیض

عنایتِ الٰہی و جذبۂ باطن ،قلبی کیفیات ، باطنی برکات فیض کہلاتا ہے ، اس حالت کو جس سے دل میں مثبت تبدیلی آنی شروع ہو جائے اور کسی شخص کا سفر اندھیروں سے روشنی کی طرف، جہالت سے علم کی طرف، نامحرمی سے معرفت کی طرف اور بے عملی سے عملِ صالح کی طرف شروع ہو جائے، تو اسے ‘فیض’ کہا جاتا ہے۔

سالک کو ذاتِ حقّ تعالیٰ (مَبدا فیض) سے جو فیض پہنچتا ہے اس کی دو قسمیں ہیں:

فیضِ تخلیقی                                   فیضِ کمالاتی

فیضِ تخلیقی:انسان کی ایجاد و تخلیق کا سبب فیضِ تخلیقی کہلاتا ہے یہ فیض انسان کو صفات کے توسط سے حاصل ہوتا ہے۔

فیضِ کمالاتی:انسان کے ایمان و معرفت اور کمالاتِ نبّوت و ولایت کا سبب فیضِ کمالاتی کہلاتا ہے یہ فیض بعض کو صفات کے توّسط سے اور بعض کو شیونات کے توّسط سے حاصل ہوتا ہے۔ مثلًا سرورِ کائنات خلاصہِ موجودات علیْہ التحیّات و الصّلوٰت کا مَبداِ فیضِ تخلیقی صفات ہیں اور مَبداِ فیضِ کمالاتی شیونات ہیں۔آپ اپنے مبداِ فیضِ کمالاتی میں ساری مخلوق سے منفرد و ممتاز ہیں اور اس مرتبے میں آپ کا کوئی شریک نہیں انبیاء و مُرسلین علیہم الصَّلوٰت اور اولیائے کاملین علیہم الرحمۃ کو آپ کے اس مرتبہِ شانُ العلم کے ظِلال سے فیض ملتا ہے۔

حضور وغیوب

حضور:رُو برو، سامنے، خدمت میں، بارگاہ میں،قلب کی توجہ حق تعالیٰ کی طرف ہونا حضورکہلاتا ہے،دلالت یقینی کے ساتھ دل کا حاضر ہونایا اپنے آپ سے غائب ہونا حضور حق کی دلیل ہے۔قلب کی وجودِ مطلق کے سامنے حاضری (مادّی دنیا کی ہر شے سے کنارہ کشی کرتے ہوئے)، حضورِ قلب، قرب،موجودگی، حاضر ہونے کا عمل، حاضری (خارج میں ہو یا ذہن میں)، غیبت کا مقابل،کسی کام میں پوری توجہ، یکسوئی کو حضور کہتے ہیں ۔

غَیبَت: دل کا گم ہونا، خود فراموشی، بیخودی، حال میں آجانا، وجد میں آنا۔دل کا ماسوی اللہ سے غائب ہونا یہاں تک اپنے آپ سے غائب ہو ،غیبت اپنی طرف سے خدا کی حضوری کا راستہ ہے لیکن غیبت میں وحشت حجاب ہوگی اورحضور میں کشف کی راحت ہوگی۔حضور و غیبت اوصاف کے فنا کی علامت بتاتے ہیں الغرض حق کے سامنے حاضر ہونا حضور اور اپنے آپ سے غائب ہونا غیبت کہلاتا ہے۔

اتصال واتحاد

خالق اور مخلوق کے درمیان ایسا کوئی تعلق نہیں کہ حق تعالیٰ اپنی مخلوق کے ساتھ مل کرمخلوق کو عین حق کر لے یا مخلوق کا احاطہ کر کے اس میں سرایت ہو کرذات حق بنا لے جسے اتحاد و عینیت کہا جاتا ہے۔لغوی اعتبار سے اتصال و اتحاد کے معنی دو چیزوں کا ذاتی طور پر  مل جانا اور ایک ذات ہو جانا ہے۔ اس قسم کا اتحاد الله تعالی کی جناب میں محال عقلی ونقلی ہے اور الحاد وزندقہ ہے۔ اصطلاحی معنی کے لحاظ سے (عینیت) یعنی ایک چیز کا متبوع اورمحتاج الیہ اور موقوف علیہ ہونا اور دوسری کامحتاج اور تابع اور موقوف ہونا ۔ یہ تعلق مخلوق کو خالق کے ساتھ ہے۔عرفی معنی کے اعتبار سے محب اور محبوب ہونے کا تعلق خاص دوذ اتوں میں ہونا ۔ تعلق خاص مقبول بندوں کو اللہ تعالی سے حاصل ہے۔

عالم امر اور عالم خلق کیا ہے؟

عالم امر سے مراد مادہ و مقدار اور ترکیب عناصر سے خالی اور فقط امرِ کُن سے پیدا ہونے والی مخلوق ہے جس پر عالمِ امر کا اطلاق ہوتا ہےجیسے انسانی روحیں، ملائکہ اور لطائفِ مجرّدہ وغیرھا عالم امر عرش کے او پر ہے عالم امر کے پانچوں لطائف یعنی. قلب. روح. سر. خفی. اخفی. کی اصل جڑ عرش کے اوپر ہے مگر اللہ تعالٰی نے اپنی قدرت کاملہ سے عالم امر کے ان لطائف کو چند جگہ انسان کے جسم میں امانتا رکھ دیا ہے تاکہ اللہ تعالٰی کا قرب حاصل کرسکے عالم امر کو عالم غیب، عالم ارواح ،عالم لاہوت اور عالم جبروت بھی کہتے ہیں،ان سب کے مجموعے کو عالمِ مجرّدات بھی کہتے ہیں۔عالم خلق اور عالم امر دو الگ الگ عالم ہیں۔ عالم امر کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں وقت کا عامل بالکل کارفرما نہیں۔ اس عالم میں کسی کام کے کرنے یا کوئی واقعہ وقوع پذیر، ہونے میں وقت درکار نہیں ہوتا۔ بس اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے اور اس کے ” کُنْ “ فرمانے سے وہ کام ہوجاتا ہے۔

لطائفِ عالمِ امر کو کمالاتِ ولایت کے ساتھ مناسبت ہے اور لطائف عالمِ خلق کو کمالاتِ نبوت کے ساتھ زیادہ مناسبت ہے۔ عالمِ امر کے پانچوں لطیفوں میں سے ہے ایک لطیفہ کو عالمِ خلق کے کسی نہ کسی لطیفہ کیساتھ مناسبت ہوتی ہے، مثلاً لطیفہ قلب کو لطیفہ نفس کیساتھ لطیفہ روح کو لطیفہ آب کیساتھ لطیفہِ سِرّ کو لطیفہ باد کیساتھ، لطیفہِ خفی کو لطیفہِ نار کیساتھ، لطیفہِ اخفیٰ کو لطیفہِ خاک کے ساتھ۔

انسان دس چیزوں سے مرکب ہے( ساخت دس 10 اجزاء سے ہوئی ہے) پانچ عالم خلق(عالم مادہ) سے یعنی چار تو عناصر ( پانی، آگ، ہوا، خاک، پانچواں نفس حیوانی جو اربعہ عناصر سے ہی پیدا ہوتا ہے اور پانچ عالم امر(عالم ماورائے مادہ) سے قلب، روح، سر، خفی، اخفی حضرت امام ربانی قدس سرہ فرماتے ہیں ان ہی اجزائے عشرہ کو لطائفِ عشرہ کہا جاتاہے۔عالمِ خلق سے جو عرش کے نیچے کی مخلوقات سے تعلق رکھتے ہیں۔

عالم خلق ہو ۔۔ یا ۔۔ عالم امر ، دونوں ہی کا عدم سے وجود میں آنا خدائے قادر مطلق کے ضابطہ کن فیکونی کے ہی ماتحت ہے ، مگر عالم خلق میں وسائل و اسباب کی بھی کارکردگی ہوتی ہے ، بخلاف عالم امر کے امور کے ، جو ظاہری اسباب و وسائل کے بغیر صرف لفظ ’ کن ‘ سے ظہور پذیر ہوجاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ عالم امر میں اس کے احکام کی تعمیل فوری ہوتی ہے ‘ جبکہ عالم خلق میں تدریج کا اصول کارفرما ہے اور یہاں وقت لگتا ہے۔ دنیا کا سارا نظام عالم خلق کے اصولوں پر چل رہا ہے۔ مثلاً آم کی گٹھلی سے کو نپلیں پھوٹتی ہیں ‘ پھر بڑھتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں وقت درکار ہوتا ہے۔عالمِ خلق کو “عالمِ اسباب، عالمِ اجسام اور عالمِ ناسُوت” کے ناموں سے بھی پُکارا جاتا ہے۔ ان سب کے مجموعہ کو عالمِ مادیات بھی کہتے ہیں۔

تجلی کیاہے؟

تجلی کسی چیز کے نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں تجلی سے مراد ذات و صفات ِ خداوندی کا ظہور ہے۔ اور یہ ( تجلی ) کبھی بالذات ہوتی ہے جیسے :وَالنَّهارِ إِذا تَجَلَّى اور دن کی جب نمایاں طور پر روشنی ہوجائے۔ اور کبھی بذریعہ امر اور فعل کے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جب ان کا پروردگار پہاڑ پر جلوہ افروز ہوا ۔اس سے واضح ہوتاہے تجلی کسی شے کے منکشف اور ظاہر ہونے کا نام ہے۔صوفیاء کے نزدیک تجلی کا تصور یہ ہے کہ ذات حق تعالی نورہے یہ نور گویا جب صورتوں پرجلوہ گر ہوکرچمکتا ہے تو وہ اسی تجلی کو ظہور(ظاہر ہونا) سریان(سرایت) اور مظہر(ظاہر ہونے کی جگہ) سے تعبیر کرتے ہیں حضرت سید شریف علی بن محمد الجرجانی اصطلاحات صوفیاء کے بیان میں تحریر کرتے ہیں: غیبی انوار کے دلوں پر منکشف ہونے کا نام تجلی ہے۔حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی مجددی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:کسی شے کے دوسرے مرتبے میں ظہور کو تجلی کہتے ہیں جیسے زید کی صورت کا آئینہ میں ظاہر ہونا۔حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز تجلی کا مفہوم یوں واضح فرماتے ہیں  :یعنی کسی شے کے دوسرے یا تیسرے یا چوتھے مرتبے میں جہاں تک اللہ تعالی چاہے ظاہر ہونے کو تجلی کہتے ہیں۔

مراتب سلوک میں ترقی کی ابتدا تجلی ذاتی سے ہوتی ہے یہی وہ تجلی ہے جس کو حضرت ابن عربی علیہ الرحمہ اپنے ساتھ مخصوص جانتے ہیں امام ربانی کے نزدیک تجلی ذاتی سرور عالم ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے اور آپ کے حق میں دائمی ہیں اور اولیائے محبوبین محمدی المشرب ( محمدی المشرب تمام مراتب کا جامع ہے اس میں سالک متخلق باخلاق اللہ ہو جاتا ہے اس ولایت کو ولایت حضرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور سالک کو محمدی المشرب کہتے ہیں )بھی بواسطہ متابعات ومناسبت سرور عالم ﷺ تجلی ذاتی سے مشرف ہوتے ہیں۔

اکثر مشائخ کے نزدیک یہ تجلی برقی ہے یعنی برق مانند تھوڑے سے وقت کے لئے حجابات اٹھتے ہیں اور پھر اسماء و صفات کے پردے ڈال دئیے جاتے ہیں لیکن اکابر نقشبندیہ کے نزدیک یہ تجلی ذاتی دائمی ہے کبھی زائل اور غائب نہیں ہوتی یہی ان بزرگوں کی نسبت خاصہ ہے یعنی دو ام الحضور  مع اللہ اسی لئے فرمایا یا :

اِنَّ نِسْبَتَنَا فَوْقَ جَمِيْعِ النِّسَبِ ہماری نسبت تمام نسبتوں سے بالاتر ہے۔

تجلی ذاتی وہ ہے جس کا مبدأ ذات ہو اور اس کے ساتھ صفات میں سے کسی صفت کا اعتبار نہ ہو اگرچہ وہ تجلی اسماء و صفات کے واسطے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی کیونکہ حق تعالی موجودات پر اپنی ذات کی حیثیت سے تجلی نہیں فرماتا بلکہ اسماءکے پردوں میں سے کسی پردے کے پیچھے سے تجلی فرماتا ہے۔جب دل کا آئینہ ماسواللہ کی کدورت سے پاک صاف ہو جاتا ہے تو تجلی حق کے قابل سمجھا جاتا ہے مگر اس کا یہ معنی نہیں کہ جس کا دل صفا ہو اس کو تجلی کی سعادت بھی حاصل ہو تجلی کیلئے دل صفا ضروری ہے لیکن دل صفا پر تجلی ہونا ضروری نہیں۔

تجلی صفاتی وہ ہے جس کا مبداء حق تعالی کی صفات میں سے کوئی صفت ہوں اپنے تعین اور ذات سے امتیاز کے اعتبار سے اس تجلی میں سالک حق تعالی کو امہات صفات( صفات ثمانیہ) میں متجلی پاتا ہے۔

سیر الی اللہ

سالک جو ابتدا ءمیں روحانی مریض ہوتا ہے ، علاج کے لئے مرشد کامل کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اور اس میں اطلاع و اتباع کے ذریعے سالک کی روحانی بیماریاں آہستہ آہستہ دور ہورہی ہوتی ہیں ۔یہاں تک درجہ ضرورت میں سالک کا دل ان بیمایوں سے پاک ہوجاتا ہے ۔یعنی اس کے نفس کا تزکیہ ہوجاتا ہے جس کی طرف قُرآن میں اشارہ “قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا ” یعنی بے شک جس نے نفس کو پاک کیا کامیاب رہا ۔اس کے ساتھ سالک کا قلب اخلاق حمیدہ سے آراستہ ہوا یعنی اس میں تواضع ،اخلاص ، تفویض، حب الٰہی و حب رسول اور انابت الی اللہ کی صفات پیدا ہوئیں اور اس میں رسوخ حاصل ہوا۔ یعنی ان صفات نے قلب میں جگہ پکڑ لی اور ان کو حاصل کرنے کی تدابیر سے آگاہی ہوئی تو کہا جاتا ہے کہ اس کی سیر الی اللہ کی تکمیل ہوئی۔اس کے بعد سالک کو علم الیقین اور فناءِ تام حاصل ہوجاتا ہے اور شیخ اس کو اکثر اجازت وخلافت دے دیتا ہے ۔

سیر فی اللہ

سیر الی اللہ کے بعد قلب کے اندر تزکیہ اور تقویٰ سے ایک خاص جلاء اور نور پیدا ہوتا ہے اور سالک برابر قلب کو ماسواء اللہ سے فارغ کرتا رہتا ہے تو حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال نیز حقائق کونیہ اور حقائق اعمال شرعیہ سالک کے دل پر منکشف ہوجاتے ہیں، جس سے اس کا خالق کے ساتھ قرب میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور وہ عین الیقین سے حق الیقین تک سفر کرتا رہتا ہے اس کو سیر فی اللہ کہتے ہیں جس کی کوئی حد نہیں جتنا حصّہ جس نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی استعداد کے مطابق پایا وہ اس کا حصّہ ہے ۔موت تک سالک کی یہ سیر جاری رہتی ہے اور تفرید اور تجرید کے ذریعے قرب میں ترقی کرتا رہتا ہے ۔اس میں چاہے شیخ سے مرُیدبڑھ جائے ۔یہ بھی ممکن ہے۔ اس تمام تفصیل سے یہ بات نوٹ کرنی چاہیے کہ بعض کتابوں میں سیر فی اللہ کے بعد بھی دو سیر لکھی گئی ہیں لیکن حقیقت میں یہ سیر فی اللہ کا ہی حصّہ ہیں۔ان کو الگ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔جہاں تک شیخ کی نگرانی میں سالک کے سلوک طے کرنے کا تعلق ہے وہ سیرالی اللہ ہے جس کاجاننا ضروری ہے ۔سیر فی اللہ سالک اور اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے جس کے بارے میں ارشاد ہے:چاہے کسی کو اپنے جمال کے مشاہدہ میں مستغرق کردے جو اصطلاح میں “مُسْتَہْلِکِیْن “کہلاتے ہیں یا ان کو مخلوق کی اصلاح پر ماُمور کرکے صفت بقاء سے متصف کردے جو اصطلاح میں راجعین کہلاتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے جو بھی فیصلہ فرمادے ۔ راجعین کو مرشدین بھی کہتے ہیں ۔ان کے ظاہر کو عام مخلوق سے خلط ملط کرکے ان کے ذریعے احکام شرعیہ لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔