CHISHTI LINEAGE (شجرہ عا لیہ چشتیہ نظامیہ)
حضرت خواجہ شیخ سراج الدین علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ علم الدین علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ محمود راجن علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ جمال الدین جمن علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ محمد بن حسن محمد علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ حسن محمد علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ یحی مدنی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی علیہ الرحمۃ
اصطلاح ’’عام خاص اور مطلق و مقید‘‘ کی معرفت
حضرت خواجہ شیخ نظام الدین اورنگ آبادی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ مولانا فخر الدین فخر جہاں دہلوی علیہ الرحمۃ
قبلہ عالم حضرت خواجہ نور محمد مہاروی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ ناصر الحق والدین ابی محمد ابن احمد چشتی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ مودود احمد چشتی علیہ الرحمۃ
مخدوم حاجی شریف زندنی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الہٰی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ کمال الدین علامہ علیہ الرحمۃ
حضور نبی کریم ﷺ
حضرت علی المرتضی حیدر کرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت خواجہ ابو الفضل عبد الواحدبن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہہ
حضرت خواجہ ابو الفضل فضیل بن عیاض علیہ الرحمۃ
حضرت سلطان ابراہیم ادہم بلخی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ سدید الدین حذیفہ المرعشی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ امین الدین ابی ہبیرہ البصری علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ قدوۃ الدین ابی احمد بن فرشتافتہ چشتی علیہ الرحمۃ
حضور نبی کریم ﷺ
حضرت علی المرتضی حیدر کرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت خواجہ ابو الفضل عبد الواحدبن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہہ
حضرت خواجہ ابو الفضل فضیل بن عیاض علیہ الرحمۃ
حضرت سلطان ابراہیم ادہم بلخی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ سدید الدین حذیفہ المرعشی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ امین الدین ابی ہبیرہ البصری علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ قدوۃ الدین ابی احمد بن فرشتافتہ چشتی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ ناصر الحق والدین ابی محمد ابن احمد چشتی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ مودود احمد چشتی علیہ الرحمۃ
مخدوم حاجی شریف زندنی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الہٰی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ کمال الدین علامہ علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ سراج الدین علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ علم الدین علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ محمود راجن علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ جمال الدین جمن علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ محمد بن حسن محمد علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ حسن محمد علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ یحی مدنی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی علیہ الرحمۃ
اصطلاح ’’عام خاص اور مطلق و مقید‘‘ کی معرفت
حضرت خواجہ شیخ نظام الدین اورنگ آبادی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ مولانا فخر الدین فخر جہاں دہلوی علیہ الرحمۃ
قبلہ عالم حضرت خواجہ نور محمد مہاروی علیہ الرحمۃ
حضور نبی کریم ﷺ
حضرت نبی کریم ﷺکا اسم مبارک محمداوراحمد، کنیت ابو القاسم اور ابو ابراہیم، اور لقب مصطفےﷺ ہے۔آپﷺ کے والد ماجد حضرت عبدالللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ تھے، اور والد ماجدہ حضرت آمنہ بنت وہب بن عبد مناف تھیں، ۱۲ربیع الاول ۵۶سال قبل ہجرت کو دو شبنہ (پیرمبارک) کے دن صبح صادق کے وقت حضورﷺذات پاک سے یہ کرہ ارضی منور ہوا۔آپﷺ کا وصال بھی دو شبنہ کے دن ہی ۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری کو ہوا،سن مبارک وسال کے وقت تریسٹھ برس کےقریب تھا۔ـحضور لا مع النورﷺمدینہ طیبہ میں مسجد نبویﷺکے ایک گوشہ میں گنبد خضری میں آرام فرماہیںـ
صوفیائے کرام فرماتے ہیں سر اس راز کو کہتے ہیں جو بندے اور حق تعالیٰ کے درمیان محفوظ اور پوشیدہ رہتاہے،سر اس راز کو بھی کہتے ہیں جس پر تفکر وتدبر کے بغیر پہنچنا ممکن نہ ہو،عربوں میں ایک محاورہ بولا جاتاہے:’’صَدُورُ الْاَحْرَارِ قُبُوْرُ الْاَسْرَارِ‘‘ آزاد لوگوں کے سینے اسرار کی قبریں ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سر وہ ہے جسے حق تعالیٰ نے غائب رکھا ہو اور اس پر صرف حق تعالیٰ ہی مطلع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سرالسر ہوتا ہے جس کا احساس سر بھی نہیں کر سکتا ہے۔ہرفن کے کچھ دقائق و حقائق ہوتے ہیں جن سے اس فن کے ماہرین آشنا ہوتے ہیں ، ان کی صحبت میں رہے بغیر دوسروں کو ان کی معرفت نہیں ہو پاتی اور صحبت کے بغیر اگر ان کو حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں تو اکثر غلط فہمی اور مقصود سے دوری کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ،تصوف کے دقائق وحقائق کی معرفت کے سلسلے میں تو صحبت اور بھی ضروری ہوتی ہے، کیوں کہ دوسرے فنون کے دقائق وحقائق عقل کا فیضان ہوتے ہیں ، جب کہ صوفیہ کے دقائق وحقائق روحانی فیوض اور ر بانی الہامات ہوتے ہیں جو مصفیٰ ومز کیٰ قلوب پر انعام الٰہی کے طور پر اتر تے ہیں۔
حضرت علی المرتضی حیدر کرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت علی کرم الللہ وجہہ کی کنیت ابوالحسن ‘لقب مرتضی اور ید الللہ ہے ـآپ کی ولادت ۱۳رجب ۲۳قبل ہجرت بروز جمعتہ المبارک خانہ کعبہ میں ہوئی بچوں میں سب سے پہلےآپ ایمان لاےـحضوراکرمﷺ نے فرمایا:میں علم کا شہر ہوں اور علی اس شہر کے دروازہ ہیںـسوائےسلسلہ نقشبند یہ کے دیگر تمام سلاسل تصوف یعنی سلسلہ چشتیہ‘قادریہ اور سہردر یہ آپﷺسے جاری ہوےـآپ سلسلہ صوفیا اور تصوف کے امام ہیںـ۲۱ رمضان ۴۰ ہجری شب دو شنبہ کو شہید ہوےـآپ کا مزارمقدس اشرف(عراق) میں مرجع خلالق ہےـ
حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت خواجہ حسن بصری کی ولادت 21 ہجری میں مدینہ منورہ کے اندر ہوئی۔ یہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ ام المومنین حضرت ام سلمہ کی خادمہ تھیں۔ وفات بصرہ میں 110 ہجری میں ہوئی۔ آپ وہ خوش نصیب ہیں جنہیں ام المومنین حضرت ام سلمہ سے شرف رضاعت میسر آیا۔تقریبًا تمام سلاسل طریقت آپ ہی کے ذریعے سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ ملتے ہیں۔طبقات حسامیہ میں منقول ہے کہ خواجہ حسن بصری کبار تابعین میں سے شمار کئے جاتے ہیں آپ نے ایک سو تیس اور بعض کے نزدیک ایک سو تینتیس صحابہ کرام سے ملاقات کی جن میں ستر اہل بدر تھے آپ نے زیادہ تر حذیفہ بن الیمان سے فیض حاصل کیا۔
مطلوب الطالبین میں آیا ہے کہ خواجہ حسن بصری کو عالمی ولایت حاصل تھی کیونکہ چودہ خاندان آپ کے مرید ہونے کی وجہ سے دنیا میں مشہور ہوئے،چنانچہ پانچ خاندان تو حضرت عبدالواحد بن زید سے ہیں، اور نو خاندان حضرت حبیب عجمی سے ہیں اور یہ دونوں بزرگ خواجہ حسن بصری کے مرید تھے ۔پانچ خاندان یہ ہیں:
۔خاندان زیدیاں :جس کی نسبت خواجہ عبد الواحد بن زید کی طرف ہے۔
۔ خاندان عیاضیاں :جس کی نسبت خواجہ فضیل بن عیاض کی طرف ہے۔
۔ خاندان ادہمیاں جس کی نسبت خواجہ ابراہیم بن ادہم بلخی کی طرف ہے۔
۔ خاندان ہبیریاں جو خواجہ ابو ہبیر کی طرف منسوب ہے۔
۔ خاندان چشتیاں جو خواجہ ممشاد علود ینوری کی طرف منسوب ہے۔
اور نو خانوادے جن کا تعلق حضرت حبیب عجمی کے ساتھ ہے،وہ یہ ہیں:
۔ خانواده عجمیاں:جس کا سر چشمہ حضرت حبیب عجمی ہیں ۔
۔خانواده طیفوریاں :جس کا سر چشمہ حضرت بایزید بسطائی ہیں ،کیونکہ پہلے آپ کا نام طیفور تھا۔
۔خانوادہ کر خیاں، جس کا مبداء حضرت خواجہ معروف کرخی ہیں
۔خانوادہ سقطیاں: اس کا سر چشمہ حضرت خواجہ سری سقطی ہیں۔
۔خانواده جنیدیاں :اس کا سر چشمہ حضرت خواجہ جنید بغدادی ہیں ۔
۔خانوادہ گا ذوریاں:اس کا سر چشمہ حضرت خواجہ ابو اسحق گاذ ورنی ہیں جو عبد اللہ حنیف کے مرید اور خلیفہ تھے، اور وہ خواجہ ادہم کے اور وہ خواجہ جنید بغدادی کے مرید و خلیفہ تھے۔
۔خانواده طوسیان:ان کی شہرت شیخ علاؤ الدین طوسی کی نسبت سے ہوئی۔
خانوادہ سہر وردیاں، اس خاندان کا آغاز ابو نجیب ضیاء الدین سہروردی سے ہوا جو شیخ وجیہہ الدین ابو حفص کے مرید اور خلیفہ تھے۔
۔خانوادہ فردوسیاں: اس خاندان کا آغاز شیخ نجم الدین کبری سے ہوا جو خاندان فردوس کے اکابر میں سے ہیں اور وہ شیخ عمار یا سر کے مرید اور خلیفہ ہیں جو شیخ ابو نجیب فردوسی کے خلیفہ تھے اور وہ وجیہہ الدین ابو حفص کے مرید اور خلیفہ تھے۔
ضرت خواجہ ابو الفضل عبد الواحدبن زید علیہ الرحمۃ
عبد الواحد بن زيد جنہیں امام ذھبی نے شیخ العباد کا لقب دیا ا،بو عبیدہ بصری کے نام سے بھی معروف ہیں، ان کا ذکر رواۃ حدیث میں بھی ملتا ہے جنہیں صوفی اور واعظ کی حیثیت سے جانا جاتا ہے ، اورخواجہ حسن بصری کے مرید ہیں اور انہی سے خرقہ خلافت پایا۔ آپ کثرت سے مجاہدے کیا کرتے تھے۔ چالیس روز سخت مجاہدہ کرنے کے بعد آپ نے حضرت حسن بصری کے ہاتھ پر بیعت کی۔ عبد الواحد بن زیدنے حکم قرآنی کے مطابق ایک عرصے تک سیر و سیاحت کی اور اس دوران عبادت وریاضت بھی کرتے رہے۔ آپ خواجہ حسن بصریؓ کے اجل خلیفہ میں ہیں۔صائم الدہر قائم اللیل اکابر میں تھے۔ تین روز بعد افطار فرماتے اور پھر بھی تین چار لقموں سے زیادہ تناول نہیں فرماتے۔ زہد کا غلبہ اس قدر تھا کہ جو کچھ پاس ہوتا تھا سب خدا کے راستے میں خرچ کردیتے تھے۔ دینار و درہم اگر کسی کے دینے کے واسطے بھی ہاتھ میں لیتے تھے تو ہاتھ دھویا کرتے۔ سفینۃ الاولیا اور اخبار الاولیا کے مطابق آپ 27 صفر 177ھ کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے آپ کا مزار مبارک بصرہ میں واقع ہے۔
حضرت خواجہ ابو الفضل فضیل بن عیاض علیہ الرحمۃ
حضرت فضیل بن عیاض کا شمار نہ صرف اہل تقویٰ اور اہل ورع میں ہوتا ہے بلکہ آپ مشائخ کے پیشوا، راہ طریقت کے ہادی ولایت و ہدایت کے منبع اور کرامت و ریاضت کے اعتبار سے اپنے دور کے شیخ کامل تھے اور آپ کے ہم عصر آپ کو صادق و مقتدا تصور کرتے تھے۔آپ نے امام اعظم ابو حنیفہ کے علاوہ بھی کئی نامور علماء و محدثین سے اکتساب علم کیا۔
حضرت فضیل بن عیاض کا شمار نہ صرف اکابر صوفیاء میں سے ہوتا ہے بلکہ آپ علم حدیث میں بھی بڑا کمال رکھتے تھے-علماء و محدثین جہاں آپ کے فیوض و برکات سے مستفید ہوتے تھے تو اسی طرح آپ سے سماع اور روایت حدیث کو بھی اپنے لئے سعادت کا باعث سمجھتے- آپ حفظِ حدیث اور ثقاہت کے اس اونچے درجے پر فائز تھے کہ اصحاب صحاح ستہ نے آپ سے تخریج کی ہے اور آپ کا شمار امام بخاری و مسلم کے رجال میں ہوتا ہے-آپ کے حدیث میں علمی مقام و مرتبہ کی وجہ سے آئمہ فن نے مختلف انداز میں آپ کی ثقاہت کمال کو بیان کیا ہے۔
امام فُضَیْل بن عِیاض نے جب تعلیم و تربیت مکمل کر لی تو آپ کوفہ سے مکہ شریف منتقل ہو گئے اور وہاں مجاورت اختیار کر کے بقیہ زندگی وہیں گزاری-آپ کا وصال بھی مکہ شریف میں 187ھ میں ہوا۔
حضرت سلطان ابراہیم ادہم بلخی علیہ الرحمۃ
دنیا کا عجیب و غریب نظام اور پے در پے پیش آنے والے اعجوبات اس بات پر دال ہیں کہ اس نظام کائنات کو کوئی چلانے والا ہے، کوئی ذات ہے جو ہر طرح کے تصرف پر قادر ہے، جو شاہ کو فقیر اور فقیر کو شاہ بنانے پر قدرت رکھتا ہے، جو عیش و نشاط میں زندگی بسر کرنے والے کو زاہد و عابد اور نیک پارسا بنا دیتا ہے اور کبھی متقی و پرہیزگار کو متاع تعیش کا عاشق اور دلدادہ بنا دیتا ہے۔ عیش و طرب میں پلنے والے کو سنگلاخ وادی کا مسافر اور صحرا نوردی کرنے والے کو محلات کا مالک بنا دیتا ہے۔ وہ ذات گرامی ہے جو ہر طرح کے تصرفات پر قادر ہے۔ وہ جس سے چاہے کام لے اورجسے چاہے راندہ درگاہ قرار دے ۔ ایک ایسی ہی داستان اورایک واقعہ جس نے ایک راج گدی پر بیٹھنے والے اور جاہ و حشم اور لاؤ لشکر کے درمیان زندگی بسر کرنے والے بادشاہ کو اپنے حقیقی عشق کا جام پلا کر صحرانوردی میں قلبی سکون کی متلاشی بنا دیا تھا۔ یہ شاہ بلخ سلطان ابو اسحق ابراہیم بن ادہم کی ذات گرامی ہیں جن سے بیک وقت تصوف و سلوک اور علم حدیث کے سوتے پھوٹے ہیں۔ جن کے شاگردوں اور فیض یافتگان میں شیخ شقیق بلخی ، سفیان ثوری اور امام اوزاعی جیسی شخصیات شامل ہیں۔ ابراہیم بن ادہم کی زندگی شروع تو محلات سے ہوئی لیکن آپ کی حیات علم و عمل اور زہد و تقوی کے میدان میں جفا کشی کرتے ہوئی گزری ہے۔
آپ کی پیدائش قرن اول میں ہوئی ہے۔ راجح قول کے مطابق آپ کی پیدائش 100 ہجری بمطابق 13 مئی 718 عیسوی ہے۔
ریبا نو سال تک صحرانوردی کرنے کے بعد آپ مکہ مکرمہ حاضر ہوئے۔ یہاں آپ کی ملاقات صوفی وقت، محدث عصر حضرت فضیل بن عیاض سے ہوئی۔ آپ ان کے حلقہ درس میں شریک ہونے لگے اور پھر ان کے دامن سے اس طرح وابستہ ہوئے کہ زندگی بھر کے لئے انہیں کے ہوکر رہ گئے۔ حضرت فضیل بن عیاض سے بیعت ہوئے اور انہیں سے آپ کو خلافت بھی میسر ہوئی ہے۔ ان کے علاوہ، خواجہ عمران بن موسی، امام باقر، شیخ منصور سلمی اور حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہم سے بھی خلافت حاصل ہے۔ علم حدیث میں آپ نے امام اعمش، مالک بن دینار، مقاتل اور محمد بن زیاد سے فیض اٹھایا اور اس درجہ عبور حاصل کیا ہے کہ سفیان ثوری، شقیق بلخی، بقیہ بن ولید، امام اوزاعی اور محمد بن حمید جیسے محدثین کا شمار آپ کے فیض یافتگان میں ہوتا ہے۔ امام بخاری نے اپنی کتاب (الادب المفرد) میں اور امام ترمذی نے اپنی جامع میں آپ سے تعلیقا احادیث نقل کیا ہے۔حضرت ابراہیم بن ادہم کی وفات کے سلسلہ میں مختلف اقوال موجود ہیں۔ حافظ ابن حجر کی تحقیق کے مطابق آپ کی وفات 162 ہجری ہے اور امام سمعانی کے مطابق 161 ہجری ہے۔
حضرت خواجہ سدید الدین حذیفہ المرعشی علیہ الرحمۃ
آپ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم، محدث، اور فقیہ العصر تھے۔ زہد و تقویٰ، عبادت و ریاضت، علم و عمل میں یکتائے زمانہ تھے۔ ایک ختمِ قرآن دن میں اور ایک رات میں کرتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ تیس سال تک باوضو رہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ روزہ سے رہتے اور چھ دن کے بعد افطار کیا کرتے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے اہل دل کی غذا تو لا الہ اللہ محمد رسول اللہ ہے۔
آپ کا شمار اکابر مشائخ اور پیشوائے اولیائے صاحب اسرار میں ہوتا ہے۔ علم ِسلوک میں آپ کی تصانیف بہت ہیں۔ آپ مجرد زندگی بسر کرتے تھے۔ نہ بیوی تھی نہ بچے۔ سارا وقت ذکر و اذکار ،مجاہدۂ و مراقبہ میں مشغول رہتے تھے۔ آپ جس درویش کو دیکھتے ان کا بے حد احترام و اکرام بجا لاتے تھے اور ان سے فیض طلب کرتے تھے۔
بیعت و خلافت: ظاہری علوم میں تکمیل کے بعدحضرت خضر علیہ السلام کی راہنمائی میں حضرت ابراہیم بن ادہم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تکمیلِ سلوک کے بعد آپ نے خرقۂ خلافت حضرت خواجہ ابراہیم بن ادہم سے حاصل کیا، اور حضرت خواجہ ابراہیم نے جو نعمت حضرت خضر علیہ السلام، حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ اور خواجہ فضیل بن عیاض علیہ الرحمہ سے حاصل کی تھی آخر عمر میں آپ نے تمام خواجہ حذیفہ کے حوالہ کردی اور اپنا جانشین مقرر فرمادیا۔
وصال: آپ کا وصال 14/شوال المکرم 252ھ میں ہوا۔ آپ کا مزار شریف بصرہ میں ہے۔
حضرت خواجہ امین الدین ابی ہبیرہ البصری علیہ الرحمۃ
امام اہل طریقت ، سیر حلقۂ واصلان حقیقت ، تاج العارفین ، مقتدائے دین ، مخصوص بہ رہبری ،قطب وقت خواجہ ہبیرہ بصری قدس سرہ کو خرقہ خواجہ حذیفہ مرعشیؒ سے ملا۔آپ علمائے اور اولیائے وقت کے پیشوا تھے ۔آپ معرفت حق میں اور علمائے ومشائخ میں مشہور ومعروف تھے، اور صاحبِ درجاتِ رفیع اور مقامات عالی تھے ۔آپ کے ریا ضات وکرامات بیشمار ہیں ۔مریدین کی تربیت میں آپ مہارت تامہ رکھتے تھے ۔ آپ صاحب مذہب کہلاتے ہیں ۔اور آپ کے مریدین کو ہبریانؔ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔آپ کا اور آپ کے مریدین کا طریق یہ تھا کہ رات دن وضو سے رہتے تھے ۔نماز حضور دل سے ادا کرتے تھے ۔غیر کا ذکر آپ کی مجلس میں ہر گز نہیں ہوتا تھا ۔ کیونکہ ان کے لیے غیر کا وجود ختم ہو چکا تھا ۔صفائی دل کے لیے بیحد کو شش کرتے تھے ۔ چناچہ تین چار دن کے بعد جنگل سے میوہ یا سبزی حاصل کرکے افطار کرتےتھے اور ہمیشہ مراقبہ وار محاسبہ میں رہتےتھے ۔ قلب کی آنکھوں سے انوار کا مشاہدہ کرتے تھے اور تجرد کی حالت میں صحرا میں رہتے تھے ۔ شہر اور بستیوں میں سکونت نہیں کرتے تھے ۔ خلق کے ساتھ ملنا جلنا ترک کرتے تھے چونکہ باطنی طور پر تمام مقاصد کو خیر باد کہہ چکے تھے ان کی آرزو یہ تھی کہ ظاہر کو بھی باطن کے ہمرنگ بناکر تو حید میں فنا حاصل کریں ۔آپ کے حالات وکرامات بیشمار ہیں جب آ پ کے مریدین کے کمالات اس قدر ہیں کہ دائرہ تحریر سے باہر ہیں تو آپ کے کمالات کی کیا حدہو سکتی ہے ۔اس طائفہ کے ہاں کشف وکرامات کوئی قدر وقیمت نہیں رکھتے ۔وجہ یہ ہے کہ ہمارے خواجگان چشت رحمھم اللہ تعالیٰ کی تصانیف میں پندرہ مقامات سلوک قرار دیئے گئے ہیں ۔جن میں سےپا نچواں مقام کشف وکرا مات کا ہے ۔ پس جب تک مقام کشف وکرامات سے نہیں گزرتا باقی دس مقامات طئے نہیں کر سکتا اور بلند ہمت سالک وہ ہے جو کسی مقام پرقیام نہ رہے ۔اس کے بعد فنائے مطلق کمالِ شوق کے بغیر میسر نہیں ہوتا ۔ بزرگان نے لکھا ہے کہ بندہ اور حق کے درمیان ستر ظلماتی اور ستر نورانی حجاب مائل ہیں اور یہ تمام پر دے بے حد ریاضت ومجاہدہ اور ترک ما سوای اللہ سے قطع ہو تے ہیں اور شوق کے بغیر ہر گز قطع نہیں ہو تے اسی وجہ سے عارفین نے لکھا ہے کہ یہ راستہ کسی طرح سے قطع نہیں ہوتا بجز شوق وعشق کامل کے ۔ خواجہ ہبیرہ ؒ کی وفات [7شوال 278ھ] کو ہوئی لیکن دن وصال معلوم نہیں ہو سکا۔
حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری علیہ الرحمۃ
خواجہ ممشاد علوی دینوری آپ کا شمار جلیل القدر مشائخ و صاحبان علوم ظاہری و باطنی میں ہوتا ہے۔ آپ ایران کے دینور علاقے میں پیدا ہوئے۔ یہاں سے عراق بغداد علم حاصل کرنے کی غرض سے گئے جو اُن دنوں علوم و فنون کا مرکز ہوا کرتا تھا اور ساری دنیا سے طلبہ یہاں آیا کرتے تھے۔ آپ دنیاوی دولت رکھتے تھے اور سخی بھی تھے لہٰذا ضرورت مندوں کا خیال رکھتے تھے۔ آپ ابو ہبیرہ بصری کے مرید خاص تھے۔ جب مزاج پر روحانیت کا غلبہ ہوا تو تمام دولت غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کردی۔ باطنی اشارہ پاکر ہبیرہ بصری سے بیعت کی اور عبادت و ریاضت کے بعد باطنی کمال کی تکمیل ہوئی۔ مرشد نے اپنا کمبل عطا فرمایا اور اپنا جانشین بنایا۔ آپ کا شمار جلیل القدر مشائخ و صاحبان علوم ظاہری و باطنی میں ہوتا ہے آپ سے عجیب و غریب کرامات ظاہر ہوئیں چنانچہ کہا جاتا ہے کے آپ اپنی ولادت کے دن سے ہی صائم الدہر تھے اور ایام شیر خوارگی میں بھی دن کے وقت دودھ نہ پیا کرتے۔آپ 4 محرم الحرام 298ھ کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کی آخری آرام گاہ دینور میں ہے۔
حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی علیہ الرحمۃ
آپ کی ولادت 17 ذی الحجہ 237ھ بروز جمعہ بوقت تہجد دمشق ملک شام میں ہوئی۔آپ پیشوا و سالار چشت اہل بہشت ہیں۔ سلسلۂ چشتیہ کے نامی گرامی بزرگوں میں سے تھے۔ ظاہری اور باطنی علوم میں ممتاز تھے۔ زہد و ریاضت میں بے مثال، خلق سے بے نیاز اور خالق سے ہی ہمراز تھے۔ درویشوں سے محبت کرتے۔ اولیاء اللہ میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ فقراء میں بلند رتبہ تھے۔ سات دن کے بعد افطار کرتے تھے کہ “معراج الفقراء جوع” (بھوک ہی فقراء کی معراج ہے) مرید ہونے سے پہلے چالیس روز تک استخارہ کیا آخر ہاتف غیبی نے آواز دی” اے ابواسحاق! جاؤ، اور ممشاد دینوری کی خدمت میں حاضری دو” آپ خواجہ دینوری کی خدمت میں پہنچے، سات سال خدمت میں رہے پھر تکمیل کو پہنچے، خرقۂ خلافت پایا۔ آپ کی ذات والا صفات خانوادۂ چشت میں ممتاز تھی۔ آپ قصبۂ چشت میں قیام پذیر تھے۔ خلافت پانے کے بعد پیر دستگیر سے رخصت لے کر چشت میں واپس آئے اور خواجۂ چشت کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان ہی دنوں چشت میں اور بھی کئی بزرگان دین قیام فرما تھے ان میں خواجہ ابو احمر ابدال چشتی، خواجہ ابو محمد بن ابو احمد ابدال چشتی، ناصرالدین، خواجہ ابویوسف چشتی اور خواجہ مودود چشتی کے اسمائے گرامی مشہور ہیں۔ (علیہم الرحمہ) حقیقت یہ ہے کہ چاروں بزرگ دین کے ستون مانے جاتے تھے۔ لاکھوں گناہگاروں نے آپ کی راہنمائی میں توبہ کی اور بے شمار مرید درجۂ ولایت کو پہنچے۔
آپ کا وصال 14 ربیع الآخر 351ھ بروز شنبہ وقت نماز عصر مقام “عکہ” میں ہوا۔ صاحب خزینۃ الاصفیاء نے 329ھ بمطابق جنوری 940ء لکھا ہے۔ مزار مبارک “عکہ” ملکِ شام میں مرجع خاص و عام ہے۔ صاحب سیر الاقطاب لکھتے ہیں کہ: وصال کے وقت سے ہر شب شام سے صبح تک آپ کےمزار پر غیب سے چراغ روشن ہوجاتا ہے اور آندھیاں آئیں یا بارش کا طوفان ہو اس چراغ کو کوئی نہیں بجھا سکا۔
حضرت خواجہ قدوۃ الدین ابی احمد بن فرشتافتہ چشتی علیہ الرحمۃ
ٓپ کی ولادت 6 رمضان المبارک 260ھ،چشت شریف صوبہ ہرات,افغانستان میں ہوئی ہے، یہ دور خلیفہ معتصم باللہ کا تھا،آپ شیخ طریقت شیخ المشائخ شمس الاولیاء سرخیل سلسلۂ چشت اہل بہشت خواجۂ خوجگان خواجۂ خوجگان حضرت شرف الدین خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ اعظم تھے،آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد محترم سلطان فرسنافہ کی ایک نہایت ہی صالحہ ہمشیرہ (بہن) تھیں، جو ولیہ اور عفیفہ خاتون تھیں، حضرت خواجہ ابواسحاق شامی رحمتہ اللہ علیہ سے بے پناہ عقیدت رکھتی تھیں- بسا اوقات حضرت خواجہ ابواسحاق شامی رحمتہ اللہ علیہ ان کے گھرتشریف لے جاتے تھے- ایک دن حضرت خواجہ ابواسحاق شامی رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں آپکی (پھوپھی محترمہ) سے فرمایا کہ تمہارے بھائی کو اللہ تعالیٰ عنقریب ایک فرزند عظیم الشان جو صاحب ولایت ہوگا عطا فرماۓ گا- اور اس کی تم پرورش کرنا، کوئی چیزمشکوک و مشتبہ انکے شکم میں نہ جانے دینا۔ آپکی پھوپھی محترمہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ ان کی بھابھی امید سے ہیں تو ان کی نگہداشت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ چھوڑی، یہاں تک کے خود چرخہ کات کر اپنی حلال کمائی سے ضروریات پوری فرماتیں۔
یکم جمادی الثانی ۳۵۵ھ کو قدوۃ الدین حضرت خواجہ ابو احمد ابدال ابن سلطان فرسنافہ چشتی رحمتہ ﷲ علیہ واصل بحق ہوئے، مزار مبارک چشت شریف صوبہ ہرات،افغانستان میں ہے۔
حضرت خواجہ ناصر الحق والدین ابی محمد ابن احمد چشتی علیہ الرحمۃ
شجرة الانوار” اور دیگر کتب میں مذکور ہے کہ حضرت خواجہ ابو محمد بن ابی احمد چشتی رحمتہ اللہ علیہ کو خلافت کا خرقہ اپنے والد ماجد سے حاصل ہوا۔ آپ کو علم شریعت اور علم طریقت میں بیحد دسترس حاصل تھی ۔ آپ اکثر اوقات تحیر کی حالت میں رہتے اور بے شمار ریاضتیں کرتے ۔
نفحات الانس” میں ہے کہ حضرت خواجہ اپنے والد ماجد کے وصال کے بعد مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ آپ نے اپنی زندگی کے چوبیس سال علوم دینیہ اور معارف طریقت کے حصول میں بسر کئے ۔ آپ زہد و تقویٰ کے پابند اور دنیا و اہل دنیا سے بیحد احتراز فرمایا کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے کہ جب ہمارا اول و آخر مقصد حیات ترک دنیا ہے تو پھر ہمیں اس کے جھمیلوں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
جب محمود بن سبکتگین غزنوی رحمتہ اللہ علیہ سومنات پر حملہ کرنے گئے تو آپ بھی خدا کے الہامی احکام کے تحت ستر سال کی عمر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ سومنات پہنچ گئے اور وہاں عسا کر اسلامی کی معیت میں آپ نے مشرکوں کے ساتھ جہاد کیا۔ دوران جنگ ایک روز اسلامی لشکر کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔ لشکر آپ کی پناہ میں آیا اور آپ سے مدد کی درخواست کی۔ چشت میں آپ کا ایک عقیدت مند غلام رہتا تھا جس کا نام ” کو کا تھا وہ محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالا کرتے تھا۔ آپ نے آواز دی کوکا فورا پہنچو۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے اس کو کا نے کفار کے ساتھ سخت جنگ کی حتی کہ لشکر اسلام کو اللہ تعالی نے فتح سے نوازا۔ ادھر چشت کے لوگوں نے وہاں چشت میں دیکھا کہ کو کا لوہے کی میخیں دیوار میں ٹھونک رہا ہے لوگوں نے سبب پوچھا تو اس نے تمام تفصیلات بتائی۔
جب سلطان محمود غزنوی نے آپ کی ظاہری اور باطنی امداد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو وہ آپ کا حلقہ بگوش ہو گیا اور اس کے دل میں آپ کی عقیدت راسخ ہو گئی۔ آپ کا وصال ۴ ربیع الثانی ۴۲۱ ھ کو ہوا ۔ بعض نے ۴۱۱ ھ لکھا ہے۔ بعض کے نزدیک سن مذکور میں رجب کے پہلے عشرہ میں اور بعض نے جمادی الثانی کا پہلا عشرہ کہا ہے ۔ آپ کا مزار مبارک چشت میں ہے۔
حضرت خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی علیہ الرحمۃ
سیر الاولیاء میں ہے کہ حضرت ناصر الدین ابو یوسف چشتی حضرت ابو محمد چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے بھانجے تھے۔ آپ کا شجرہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہ تک اس طرح پہنچتا ہے۔ خواجہ ناصر الدین بن محمد سمعان بن سید ابراہیم بن سید محمد بن سید حسین بن سید عبدالله بن سید علی اکبر بن علی نقی بن محمد تقی بن علی رضا بن موسیٰ کاظم بن جعفر صادق بن محمد باقر بن زین العابدین بن امام حسین شہید بن علی المرتضی رضی اللہ عنہم ۔
جناب کلیم اللہ جہان آبادی نے مرقع شریف میں لکھا ہے کہ حضرت ابو یوسف چشتی رحمتہ اللہ علیہ کو جوانی کے ایام میں قرآن حفظ نہیں ہوتا تھا ایک رات آپ نے خواب میں خواجہ ابومحمد چشتی رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھا۔ آپ نے فرمایا سوتے وقت سو بار سورۃ فاتحہ پڑھ لیا کرو، اس کی برکت سے حافظ قرآن بن جاؤ گے ۔ چنانچہ آپ نے اپنے شیخ کے ارشاد کے مطابق عمل کیا تو نہ صرف قرآن مجید حفظ ہو گیا بلکہ اس وظیفہ کی برکت سے آپ روزانہ پانچ بار ختم قرآن بھی کر لیا کرتے تھے۔
آپ کی تاریخ وصال ۳رجب ۴۵۹ھ ہے۔ آپ کا مزار مبارک چشت میں ہے۔ آپ کی کل عمر ۸۳ سال تھی۔ آپ نے خواجہ قطب الدین مودود چشتی کو جو آپ کے بڑے بیٹے تھے اپنا جانشین نامزد کیا اور انہیں حصول علم کی وصیت کی ۔ ” مطلوب الا طالبین” میں آپ کی تاریخ وصال ۱۴ربیع الآخر درج ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
حضرت خواجہ مودود احمد چشتی علیہ الرحمۃ
افغانستان کے شہر، ہرات سے 164 کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق کی جانب تقریباً 40 ہزار کی آبادی پر مشتمل’’ چِشت‘‘ نام کا مردم خیز قصبہ واقع ہے، جسے سلسلۂ چشتیہ کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ اسے خواجہ ابو اسحاق شامیؒ سے شہرت ملی، جنھیں اُن کے مرشد، حضرت ممشاد علوی دینوریؒ نے’’ چشتی‘‘ کا لقب دیا تھا۔ وہ بعدازاں شام چلے گئے اور وہیں مدفون ہیں۔ پھر حضرت خواجہ احمد ابدال چشتیؒ، خواجہ ابو محمّد بن ابو احمد چشتیؒ اور بعدازاں اُن کے بھانجے، خواجہ ناصر الدّین ابو یوسفؒ جیسے اولیائے کرامؒ نے اِس قصبے کو شہرت بخشی۔ اِن ہی خواجہ ناصر الدّین ؒ کے ہاں قطب الدّین مودودؒ پیدا ہوئے، جن کی وجہ سے اِس قصبے کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی اور آج اِن ہی کے نام سے دنیا اس مرکزِ علم و عرفان کو جانتی ہے۔حضرت خواجہ قطب الدین کا ابتدائی نام سنجان تھا۔ مودود کا معنی ہے جس کے ساتھ محبت کی جائے اور جولوگوں کا محبوب ہو ،سنجر کے بادشاہ آپ سے بے پناہ عقیدت اور محبت رکھتے تھے اور انہیں آپ کی ذات پر بڑا ناز تھا۔
آپؒ سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی تھے۔ انتہائی عاجزانہ طبیعت پائی تھی، کوئی آتا، تو اُس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجاتے، ہمیشہ سلام میں پہل کرتے، سادہ لباس پہنتے ، اکثر روزے سے ہوتے، سلجوق سلطان آپؒ کے عقیدت مندوں میں سے تھا اور قیمتی تحائف بھی بھیجتا، جو آپؒ ضرورت مندوں میں تقسیم کردیتے۔ کثرت سے سماع کی مجالس میں شریک ہوتے، تاہم وہ مجالس آج کی طرح کی نہیں ہوتی تھیں۔ اُن میں علما اور مشائخ کی بڑی تعداد شریک ہوتی ،مجلس کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوتا، پھر مختلف اشعار پڑھے جاتے، جو خلافِ شرع نہ ہوتے۔
اگرچہ سلسلہ چشتیہ خواجہ ابو اسحاق شامیؒ سے منسوب ہے اور اُنھیں ہی اِس کا بانی قرار دیا جاتا ہے، تاہم، اِسے فروغ خواجہ مودود چشتیؒ ہی سے حاصل ہوا اور اب وہی اِس سلسلے کے مرکز اور مقتدا سمجھے جاتے ہیں۔ آپؒ 29 برس کی عُمر میں مسند نشین ہوئے اور پھر عوام کی اصلاح و تربیت کا فریضہ اس محنت و خوش اُسلوبی سے سرانجام دیا کہ آپؒ کے پیروکار دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف پھیل گئے۔ آپؒ کی تعلیمات میں خدمتِ خلق اور اللہ کی مخلوق سے محبّت نمایاں ہے، اِسی پر آپؒ نے اپنے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ اِس کی مزید وضاحت خواجہ معین الدّین چشتیؒ کے اِس قول سے بھی ہوتی ہے کہ ’’عاجزوں کی فریاد رَسی، حاجت مندوں کی حاجت روائی اور بھوکوں کو کھانا کھلانے سے بڑھ کر کوئی نیک کام نہیں۔‘‘
آپؒ کے فیض یافتگان کی کثرت کا اندازہ اِس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سوانح نگاروں نے آپؒ کے خلفاء کی تعداد 10ہزار تک بیان کی ہے، جب کہ مریدین اور معتقدین کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ اگر ہم برّ ِصغیر پاک و ہند کی بات کریں، تو یہاں خواجہ مودود چشتیؒ کے خلیفہ، خواجہ عثمانؒ کے تربیت یافتہ، خواجہ معین الدّین چشتیؒ نے اِس سلسلے کو عوام وخواص میں ایسا مقبول بنایا کہ اسے مریدین کی تعداد کے لحاظ سے خطّے کے سب سے بڑے روحانی سلسلے کا مقام حاصل ہوگیا۔
خواجہ نظام الدّین اولیاءؒ، خواجہ فرید الدّین گنج شکرؒ، حضرت قطب الدّین بختیار کاکیؒ، حضرت صابر کلیریؒ، خواجہ نصیر الدّین چراغ دہلویؒ، خواجہ گیسو درازؒ، شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ، پیر مہر علی شاہؒ، خواجہ سلیمان تونسویؒ، خواجہ شمس الدّین سیالویؒ، خواجہ نور محمّد مہارویؒ اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکّیؒ سمیت پاک و ہند کے بہت سے مشائخ اِسی سلسلے کے چشم و چراغ ہیں۔
سیر الاولیاء میں ذکر ہے کہ جب خواجہ مودود چشتی بیمار ہوئے اور آپؒ پر نزع کی کیفیت طاری ہوئی، تو بار بار دروازے کی طرف دیکھتے، جیسے کسی کے آنے کا انتظار ہو۔ اِسی اثنا، ایک نورانی چہرے والا شخص اندر آیا اور آپؒ کو ایک ریشمی کپڑے کا ٹکڑا پیش کیا، جس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ آپؒ نے کپڑے کو ایک نظر دیکھا، اپنی آنکھوں پر رکھا اور اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ نمازِ جنازہ میں اِس قدر ازدحام تھا کہ کئی بار نماز ادا کرنی پڑی۔
تقریباً تمام سوانح نگاروں نے یہ روایت بیان کی ہے کہ آپؒ کی نمازِ جنازہ سب سے پہلے رجال الغیب (اولیاء کرام کا ایک طبقہ) نے پڑھی، پھر عام افراد نے ادا کی۔ جب نمازِ جنازہ ختم ہوئی، تو تابوت خود بخود ہوا میں اُٹھ گیا اور آپؒ کی آخری آرام گاہ کی طرف چلنے لگا، ، اور جس جگہ حضرت خضر علیہ السلالم نے قیام کیا تھا وہاں اتر گیا۔ یہ دیکھ کر ہزاروں ہندو اپنے زنار تو ڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ آپ کا وصال یکم رجب ۵۲۷ھ میں ہوا۔ اپنے بزرگوں کے قریب چشت میں ہی دفن کئے گئے ۔ آپ کی عمر ۹۷ سال تھی ۔۔ آپؒ کے کئی بیٹے تھے، جن سے آپؒ کی نسل خُوب پھلی پھولی۔
مخدوم حاجی شریف زندنی علیہ الرحمۃ
زند نہ بخارا کے نواح میں ایک شہر کا نام ۔ فخری نے “شجرة الانوار” میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ شریف زندنی حضرت خواجہ مودود چشتی کے خلیفہ اعظم اور جانشین تھے، آپ بڑے احوال عجبہ اور مقامات غریبہ کے مالک تھے آپ مقتدائے مشائخ اور پیشوائے ابدال تھے،آپ کا لقب نیر الدین تھا، چودہ سال کی عمر سے باوضو رہنے لگے۔ کپڑے پرانے اور پیوند شدہ پہنتے تھے۔ فقر و تجرید پر کار بند رہے، آپ کا روزہ بھی مسلسل روزہ تھا،تین روز کے بعد بے نمک سبزی سے روزہ افطار کرتے تھے۔ اس سبزی میں یہ کمال تھا کہ آپ کا تبرک کوئی اور کھاتا تو مجذوب ہوجاتا۔ اگر سماع سن لیتا تو اس قدر روتا کہ بے ہوش ہوجاتا، اگر دنیا پرست ایک بار مجلس سماع میں شریک ہوتا تو تارک الدنیا ہوجاتا تھا۔
آپ نے اپنی عمر کے چالیس سال گم نامی اور تجرد میں بسر کئے ۔ اس عرصہ میں آپ صحراؤں میں عبادت میں مصروف رہے اور اکثر اوقات درختوں کے پتے کھا کر گزارا کیا۔ آپ لوگوں سے میل جول پسند نہ کرتے تھے۔ فاقہ کشی کی نوبت آتی تو شکرانہ کی سو رکعت نماز ادا کرتے ۔
ایک فکر مند فقیر جس کی سات بیٹیاں تھیں اور غربت و افلاس کی وجہ سے سخت پریشان تھا۔ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا، عرض کی اگر آپ کی نگاہ فیضان سے میرے رزق میں کشادگی ہوجائے اور بیٹیوں کے نکاح سے فارغ ہوجاؤں تو ساری عمر دعا گو رہوں گا، آپ نے فرمایا: تم کل آنا، کوئی تدبیر سوچیں گے، درویش چلا گیا، جاتے ہوئے راستہ میں اسے ایک یہودی سے ملاقات ہوئی، یہودی نے درویش سے پوچھا کہ تم کہاں گئے تھے، اس نے اپنی پریشانی مشکلات کا مسئلہ حضرت حاجی صاحب کے کل آنے کا حکم اور دوسرے حالات سنائے، یہودی کہنے لگا، حاجی شریف تو خود محتاج اور تہی دست ہیں تمہاری کیا مدد کریں گے، تم حاجی صاحب کے پاس واپس جاؤ اور انہیں کہو کہ فلاں یہودی نے کہا ہے کہ اگر خواجہ شریف سات سال میری خدمت کا وعدہ کرلیں تو میں آج ہی سات ہزار سرخ دینار دینے کو تیار ہوں وہ درویش واپس حاضر خدمت ہوا سارا واقعہ سنایا حضرت حاجی صاحب نے سنتے ہی فرمایا مجھے منظور ہے اور اُسی وقت اٹھ کر اس کے ساتھ یہودی کے پاس چلے گئے سات ہزار دینار اس درویش کو دلادیے اور خود خدمت گزاری پر آمادہ ہوگئے، بادشاہ کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو اس نے حضرت خواجہ کی خدمت میں سات ہزار دینار بھیجے تاکہ یہودی کا قرضہ دے کر فارغ ہوجائیں، حضرت حاجی صاحب نے یہ سات ہزار بھی غریبوں میں تقسیم کرکے فرمایا، میں نے یہودی کی سات سالہ نوکری کا عہد کیا ہے اب اس عہد سے پھرنا مناسب نہیں یہودی نے حضرت حاجی صاحب کی استقامت سن کر اپنا قرضہ معاف کردیا اور حضرت کو آزاد کردیا، آپ نے یہودی کو فرمایا کہ تم نے مجھے آزاد کیا ہے میرا اللہ تمہیں آتش دوزخ سے آواز کرے، یہودی یہ دعا سن کر مسلمان ہوگیا اور مقبولان خدا سے ہوگیا۔
سیر الاولیاء میں لکھا ہے کہ سلطان سنجر کو لوگوں نے خواب میں دیکھ کر پوچھا کہ خدا نے تمہارے ساتھ کیسا برتاؤ کیا۔ کہا میں نے جو نیک و بد کام دنیا میں کیے تھے ایک ایک میری آنکھوں کے سامنے رکھے گئے اور عذاب کے فرشتوں کو حکم صادر ہوا کہ اسے دوزخ میں لے جاکر داخل کرو۔ ابھی میں دوزخ کے فرشتوں کے ہاتھ میں نہ گیا تھا کہ دوبارہ یہ فرمان صادر ہوا چونکہ اس شخص نے فلاں دن دمشق کی مسجد میں خواجہ حاجی شریف زندنی کی قدم بوسی حاصل کی تھی حاجی شریف زندنی کی قدم بوسی حاصل کی تھی لہذا میں نے ان کی برکت سے اسے بخش دیا۔
حضرت خواجہ مودود احمد چشتی کے دوسرے خلیفہ اعظم حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی قدس سرہ ہیں جو بہت بڑے بزرگ تھے اور حضرت خواجہ مودود چشتی کے نائب کل، خلیفۂ مطلق سجادگی صوری و معنوی کے وارث اور نعمت ولایت ظاہری وباطنی کے حامل تھے۔ حضرت خواجہ مودود قدس سرہ کو اپنے مشائخ سے جو نعمت ملی تھی آپ نے آخری وقت میں خواجہ شریف زندنی کو عطا فرمائی۔ اور اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ چنانچہ سلسلہ عالیہ چشتیہ کو آپ کے اہتمام سے نشو ونما ملی اورقیامت تک قائم رہے گا۔ آپ کی وفات دس رجب المرجب چھ سو بارہ ہجری کو ہوئی، آپ کی عمر مبارک ایک سو بیس سال تھی۔آپ کے مزار مبارک کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ آپ کے وطن مالوف زندنہ میں ہے اور بعض کا خیال ہے کہ شام میں ہے اور زیارت گاہ عوام و خواص ہے۔
حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے نیشاپور تشریف لے گئے۔ وہاں مشاہیر علماء و فضلاء کی سرپرستی میں علوم و فنون حاصل کیے۔ آپ کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ “آپ کا خاندان چوں کہ عمدہ تہذیب و تمدن کا گہوارہ اور علم دوست تھا۔ والد ماجد بھی جید عالم تھے، اس لیے شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی علم کی طرف راغب ہو گئے اور والد ماجد کی بارگاہ میں رہ کر ابتدائی تعلیم حاصل کی، قرآن شریف حفظ کیا، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے اس زمانے کے علمی و فنی مرکز نیشاپور کا رخ کیا اور وقت کے مشاہیر علماء و فضلا سے اکتساب علم کر کے جملہ علوم مروجہ و متداولہ میں دسترس حاصل کی۔ جلد ہی آپ کا شمار وقت کے علماء و فضلاء میں ہونے لگا۔
ظاہری علوم کی تکمیل اس مرد باصفا کی آخری منزل نہ تھی۔ اس لئے علوم باطنیہ کی تحصیل کاعزم مصمم کیا اللہ جل شانہ نے آپ کے پرخلوص ارادے کی بدولت امام الاولیاء، قطب الاقطاب سرتاج سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ حضرت خواجہ محمد شریف زندنی رحمہ اللّٰه کی خانقاہ معلیٰ میں پہنچا دیا۔سلسلہ عالیہ چشتیہ میں ان کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، اور ان کی خدمت میں رہ کر سلوک کی منازل طے کرنے لگے۔عبادت و ریاضت اور مجاہدۂ و مکاشفہ نے جب کندن بنا دیا تو نگاہ ِمرشد نے منصبِ خلافت کےلئے منتخب فرما لیا۔ سلسلہ عالیہ چشتیہ کی خلافت سے سرفراز ہوئے۔ اسی طرح حضرت خواجہ مودود چشتی رحمۃ اللّٰه علیہ سے بھی فیض یاب ہوئے۔
آپ کا وصال 5 شوال 617ھ کو ہوا اس وقت ان کی عمر 91 سال تھی[3] آخری وقت میں مکہ مکرمہ میں چلے گئے اور جنت المعلیٰ کے قریب دفن ہوئے۔ ان کی بارگاہ میں خواجہ معین الدین چشتی 32 سال رہے۔ 20 سال کی عمر میں آئے اور 52 سال کی عمر میں خلافت سے نوازے گئے۔ ان ایام میں اپنے مرشد نے جو ملفوظات فرمائے انہیں انیس الارواح کے نام سے تحریر کیا ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمۃ
امام ارباب طریقت،پیشوائے حقیقت ،صاحب تمکین ،راز دار معرفت،امین تجلیات الہٰیات،امیر کشور فقر،شہ اقلیم عرفان،انیس محفل انبیاء،جلیس جلوہ گاہ کبریا،مستغرق ذات ذوالجلال،سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز اولیائے عظام ،عرفائے کاملین،منبع عارفین میں سے سب سے بلند و بالا،اعلیٰ و اشرف مقام پر فائز ہیں ،جن کی حکومت آٹھ سوسال سے آج تک چلی آرہی ہے۔
سلطان الہند حضرت معین الدین حسن چشتی سجزی رضی اللہ عنہ،خراسان کے موضع سجز میں537ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حضرت غیاث الدین حسن ہیں۔ یہ آٹھویں پشت میں عارف حق موسٰی کاظم علیہ الرحمۃ کے پوتے ہیں۔والدہ بی بی ام الورع ہے اور بی بی ماہ نور سے مشہور تھیں جو چند واسطوں سے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پوتی تھیں۔ اس لئے آپ والدکی طرف سے حسینی اور والدہ کی طرف سے حسنی سید ہیں۔
جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو آپ کے پیر ومرشد نے ولایت اور روحانیت کے تمام علوم و فنون سے آراستہ کرکے مرتبۂ قطبیت پر فائز کر دیا تو بارگاہِ رسالت مآب ﷺسے بھی حج کے بعد حضرت خواجہ کو قبولیت کی سند مل گئی۔ اس واقعہ کے بعد پیرو مرشد نے فرمایا کہ اب کام مکمل ہوگیا ، چناں چہ اس کے بعد بغداد میں ۵۸۲ھ / ۱۱۸۶ء کو حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اپنا نائب اور جانشین بنا دیا۔ اس ضمن میں خود حضرت مرشدِ کامل نے یوں اظہارِ خیال فرمایا ہے :’’معین الدین محبوبِ خدا ہے اور مجھے اس کی خلافت پر ناز ہے۔ ‘‘
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو پیر ومرشد نے اپنی خلافت و اجازت سے نواز کر رخصت کیا۔ آپ نے مرشدِ کامل سے فیض حاصل کر کے اللہ جل شانہ کی کائنات کا مشاہدہ اور اہل اللہ کی زیارت اور ملاقات کی غرض سے سیر وسیاحت کا آغاز کیا۔ سفر کے دوران آپ نے اپنے پیرومرشد کی ہدایت پر مکمل طور پر عمل کیا۔ چوں کہ حضرت خواجہ نے اپنی یہ سیاحت علومِ باطنی وظاہری کی مزید تحصیل کی غرض سے اختیار کی اس لیے وہ وہیں جاتے جہاں علما و صلحا اور صوفیہ و مشائخ رہتے۔ سنجان میں آپ نے حضرت شیخ نجم الدین کبری رحمۃ اللہ علیہ اور جیلان میں بڑے پیرحضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اور بغداد میں حضرت شیخ ضیاء الدین کی زیارت کی اور ان سے معرفت و ولایت کے علوم و فنون حاصل کیے۔
633ھ شروع ہوتے ہی خواجہ صاحب کو علم ہوگیا کہ یہ آخری سال ہے۔ آپ نے مُریدوں کو ضروری ہدایتیں اور وصیتیں فرمائیں۔ جو خلافت کے اہل تھے انہیں خلافت سے نوازا اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو اجمیر بلا بھیجا۔ خواجہ صاحب کی جامع مسجد میں تشریف فرما تھے۔ مقرربین اور احباب حاضر تھے۔ ملک الموت تقریر دل پذیر کا موضوع تھے کہ اچانک شیخ علی سنجری سے مخاطب ہوئے اور خواجہ قطب الدین کی خلافت کا فرمان لکھایا۔ قطب صاحب حاضر خدمت تھے۔ حضور غریب نواز نے اپنا کلاہ مبارک قطب صاحب کے سر پر رکھا۔ اپنے ہاتھ سے عمامہ باندھا۔ خرقہء اقدس پہنایا۔ عصائے مبارک ہاتھ میں دیا۔ مصلٰی کلام پاک، نعلین مبارک مرحمت فرما کر ارشاد فرمایا۔ یہ نعمتیں میرے بزرگوں سے سلسلہ بہ سلسلہ فقیر تک پہنچی ہیں۔ اب میرا آخری وقت آ پہنچا ہے یہ امانتیں تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ حق امانت حتی الامکان ادا کرنا تاکہ قیامت کے دن مجھے اپنے بزرگوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ پھر اور بہت سی نصیحتیں فرما کر رخصت کیا۔“
۶۳۳ھ میں5 / 6رجب کی درمیانی شب میں حسب معمول عشاء کی نماز کے بعد آپ اپنے حُجرے میں داخل ہوئے اور اندر سے دروازہ بند کرلیا۔ رات بھر دُرود اور ذکر کی آواز آتی رہی۔ صُبح ہونے سے پہلے یہ آواز بند ہوگئی۔ آخر مجبوراً دروازہ کھلا تو خدام نے دستکیں دیں اس پر بھی کوئی جواب نہ آیا تو لوگوں کی پریشانی بڑھ گئی۔ سورج نکلنے پر دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے۔ دیکھا کہ آپ واصل بحق ہو چکے ہیں۔ اور آپ کی نورانی پیشانی پر سبز اور روشن حروف میں لکھا ہوا ہے:
ھَذَا حَبِیْبُ اللّٰہ ِمَاتَ فِی حُبِّ اللّٰہِ ۔
یعنی یہ اللہ کے حبیب تھے۔ اللہ کی محبت میں وفات پائی
انتقال کی خبر بجلی کی طرح پورے شہر میں دوڑ گئی اور جنازہ پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے۔ آپ کے بڑے صاحبزادے خواجہ فخرالدین نے نماز جنازہ پڑھائی جس حُجرہ میں آپ کا انتقال ہوا وہیں آپ کو دفن کیا گیا۔ جب ہی سے آپ کا آستانہ ہندوستان کا روحانی مرکز ہے۔
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی پیدائش 1187ء موافق 582ھ قصبہ اوش کرغیستان میں ہوئی، آپ کا لقب قطب الدین، قطب الاقطاب اور کاکی عرفیت ہے، کاکی کے معنیٰ روٹی کے آتے ہیں، آپ کا نسب پدری حضرت امام حسین ابن علی مرتضیٰ سے ملتا ہے، جب آپ کی عمر پانچ برس کی ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ نے اپنے پڑوسی بزرگ سے کہا کہ میرے بچے کو کسی اچھے معلم کے سپرد کر دیں تاکہ یہ کچھ علم دین حاصل کر لے، وہ بزرگ اس بچے کو لے کر چلے ہی تھے کہ راستے میں ایک صوفی سے ملاقات ہوئی، بزرگ نے ان سے بچے کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھے خاندان کا بچہ ہے مگر اس کے والد سید کمال الدین کا انتقال ہو گیا ہے، بیوہ ماں نے مجھے بلا کر کہا کہ اس کو کسی اچھے مکتب میں داخل کر دو، بزرگ نے یہ سن کر فرمایا کہ تم یہ کام میرے سپرد کر دو، میں اس کو ایک ایسے معلم کے حوالے کروں گا جس کے علم کے فیض اور برکت سے یہ بڑا صاحبِ کمال بن جائے گا۔ پڑوسی اس بات کو سن کر بہت ہی خوش ہوا اور بچے کو لے کر اس بزرگ کے ساتھ معلم کے گھر جانے پر راضی ہو گیا۔ یہ دونوں قصبہ اوش کے ایک معلم ابوحفص کے پاس گئے اور خواجہ قطب کو ان کے سپرد کر دیا۔ ساتھ ہی اس بزرگ نے ابو حفص کو ہدایت کی کہ یہ لڑکا اولیاء اللہ میں شمار ہو گا اس لئے اس پر خاص شفقت فرمائیں۔ جب یہ دونوں حضرات چھوڑ کر چلے گئے تو معلم ابو حفص نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کون تھے جو تم کو اس مدرسہ میں لائے تھے؟ خواجہ نے کہا کہ میں ان کو بالکل نہیں جانتا۔ میری والدہ نے تو مجھے اپنے پڑوسی کے سپرد کیا تھا۔ یہ بزرگ راستے میں مل گئے اور مجھے آپ کی خدمت میں لے آئے۔ معلم ابو حفص نے جب یہ دیکھا کہ بچہ اس بزرگ کو نہیں جانتا تو انہوں نے بتایا کہ یہ بزرگ دراصل حضرت خضر تھے۔ کم سنی ہی میں بغداد آگئے اور خواجہ معین الدین چشتی سے بیعت کی۔ سترہ برس کی عمر میں خواجہ بزرگ سے خرقہ خلافت پایا۔ کچھ عرصے بعد اپنے پیرو مرشد کی معیت میں ہندوستان تشریف لائے اور دہلی میں قیام فرمایا۔ آپ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے مرشد تھے۔ آپ کی طرف دو کتابیں منسوب کی جاتی ہیں۔ ایک دیوان ہے اور دوسری کتاب فوائد السالکین ہے جو تصوف کے موضوع پر قیمتی سرمایہ ہے۔ جواجہ قطب کو سماع سے رغبت تھی۔ دہلی میں محفل سماع کے دوران شیخ احمد جام کا یہ شعر قوال گارہا تھا کہ کُشتگانِ خنجرِ تسلیم را ہر زماں از غیب جانِ دیگر اَست سن کر وجد طاری ہوا۔ کہا جاتا ہےکہ تین روز اسی وجد میں رہے، آخر 27 نومبر 1235ء مطابق 14 ربیع الاول 633ھ کو انتقال فرماگئے۔ نماز جنازہ سلطان التتمش نے پڑھائی۔ آپ کا مزار دہلی کے علاقہ مہرولی میں واقع ہے۔
حضرت خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر علیہ الرحمۃ
حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر ایک ایسا نامِ مبارک اور روشن آفتاب ہے جس نے دامانِ نبی الرحمۃ صلی اللہ علیہ وسلم سے جِلا پائی اور خواجہ معین الدین حسن چشتی نے ضیا بخشی اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی چشتی نے اپنی محبت اور عشق کی گود میں پروان چڑھایا بابا فریدالدین مسعود گنج شکر ایک ایسا آفتاب بن کر عالمِ رنگ و نور میں طلوع ہوا جو تا قیامت روشن ہے اور اس آفتاب سے کئی چراغِ حق روشن ہوئے اور دنیا کو اپنی نورانیت اور کیف محبت سے بھر دیا۔ بابا فریدالدین گنج شکر 582 ہجری میں ملتان کے قریب ایک قصبہ کیتھولا میں پیدا ہوئے آپ کے والدِ محترم حضرت قاضی جمال الدین تھے اور دادا محترم قاضی شعیب تھے جو کہ کوٹھوال/کیتھوال ہی کے قاضی تھے۔
بابا فرید ظاہری علوم سے فراغب کے بعد سیر و سیاحت کے لئے نکلے اور غزنی قندھار بدخشاں اور دوسرے علاقوں میں اہلِ علم اور اہلِ کمال و عرفان سے ملاقاتیں کر تے ہوئے بغداد میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے، بعد میں آپ خراستان، کرمان، چشت اور بصرہ وغیرہ سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ اور مدینہ میں تشریف لے گئے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ تقدیس و جمال میں حاضری دی آپ نے تین سال تک حرمین الشرفین میں چلہ کشی کی بیت المقدس اور وسطی ایشا کی سیاحت کے بعد آپ دہلی میں اپنے مرشدِ کامل خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے انوار و برکات کے ساتھ ساتھ خواجگانِ چشتیہ کی نعمتوں سے بھی فیض یاب ہوئے۔
حضرت فریدالدین مسعود گنج شکر بچپن سے ہی بہت زیادہ عبادت گزار تھے اکثر روزے سے ہوتے، نوافل پڑھتے اور چلے کیا کرتے تھے، بڑے بڑے مجاہدے فرمائے اور ریاضتیں کیا کرتے آپ نے چلہ ہائے معکوس بھی ادا فرمائے یعنی بڑے بڑے سخت اور جان جوکھوں والے مجاہدے فرمائے اور ان مجاہدوں اور ریاضتوں کی وجہ سے آپ کا ایک لقب زہدالانبیا مشہور ہے، کہا جاتا ہے کہ آپ نے مٹھی بھر کر کنکر اٹھا کر منہ میں ڈال لئے جو پھر شکر بن گئے آپ نے ان کو کھا لیا اور اپنے مرشدِ عالی کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور تمام ماجرا عرض کیا خواجہ عالی نے ارشاد فرمایا کہ تم نے اچھا کیا جو ان سے روزہ افطار کیا جو کچھ غیب سے ہوتا ہے اچھا ہی ہوتا ہے، پھر ارشاد فرمایا ”جاؤ شکر کی طرح شیریں رہو گے؟ اس کے بعد آپ کا لقب پیر شکر گنج مشہور ہوگیا۔
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وصال، 5محرمُ الحرام 664ھ مطابق 17 اکتوبر 1265ء کو ہوا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا مزارِ پُراَنوار پنجاب (پاکستان) کے شہر پاکپتن شریف میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔
حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الہٰی علیہ الرحمۃ
آپ شیخ فرید الدین گنج شکر کے خلفاء میں سے تھے، آپ کا نام محمد بن احمد بن علی بخاری اور آپ کا لقب سلطان المشائخ نظام الدین اولیاء تھا، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب اور مقرب تھے آپ کی برکات کے اثرات سے ہندوستان لبریز ہے، آپ کے دادا علی بخاری اور نانا خواجہ عرب دونوں اکٹھے بخارا سے لاہور تشریف لائے، یہاں ایک طویل عرصہ رہنے کے بعد بدایوں چلے گئے اور وہاں مستقل سکونت اختیار کی، آپ بہت کم عمر کے تھے۔ کہ آپ کے والد ماجد انتقال فرما گئے، جن کا مدفن بدایوں ہی میں ہے۔ شیخ نظام الدین اولیاء جب کچھ بڑے ہوئے تو آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو ایک مدرسہ میں برائے حصول تعلیم داخل کردیا، جہاں آپ نے قرآن کریم اور اس کے علاوہ دوسری کتابیں پڑھنی شروع کیں، آپ کی عمر تقریباً بارہ برس کی ہوگی اس وقت آپ لغت علم ادب پڑھتے تھے، ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ملتان سے ایک غزل خواں بنام ابوبکر آپ کے استاد کے پاس آیا اس نے کہا کہ میں نے شیخ بہاء الدین زکریا کے سامنے مجلس سماع میں یہ شعر پڑھا تھا لقد لسعت حیتہ الھوی کبدی ترجمہ: (محبت کے سانپ نے میرے دل کو ڈس لیا ہے) اور کہنے لگا کہ مجھے اس شعر کا دوسرا مصرعہ یاد نہیں رہا شیخ نظام الدین اولیاء نے فوراً دوسرا مصرعہ پڑھ کر سنایا، لا طبیب لھا ولا مراتی ترجمہ: (اس کے لیے نہ کوئی طبیب ہے، جو علاج و معالجہ کرکے اسے دور کردے اور نہ کوئی منتری ہے جو جھاڑ پھونک کرکے اس کے اثرات کو دل سے دور کردے) اس کے بعد اس غزل خواں نے شیخ بہاء الدین زکریا کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے اور کہنے لگا کہ ان کے ہاں ذکر و شغل کی یہ حالت ہے کہ آپ کے ہاں چکی پیسنے والے مرد اور عورتیں بھی ذکر میں مشغول رہتے ہیں اور اسی قسم کی بہت سی باتیں بیان کرتا رہا لیکن ان میں سے کسی بات نے بھی نظام الدین اولیاء کے دل پر اثر نہ کیا پھر اس غزل خواں نے کہا کہ میں وہاں سے اجودھن (موجودہ پال پتن) پہنچا، وہاں میں نے طریقت کا ایک بادشاہ دیکھا جو ایسا اچھا اور ایسا بہترین ہے (یعنی بابا گنج شکر کے مختلف قسم کے فضائل بیان کیے) غزل خواں کی یہ باتیں سنتے ہی خواجہ نظام الدین اولیاء کے دل میں شاہ اجودھن کی محبت و اردات نے جگہ کرلی اور ان کی طبیعت پر ایک کیف و خود رفتگی سی طاری ہوگئی اور اسی وقت سے خواجہ نظام الدین اولیاء کے دل میں شیخ فرید کی محبت پیوست ہوگئی اور ان کے دیدار کی پیاس روز بروز بڑھتی رہی، چنانچہ اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے شیخ فرید کی ملاقات کا تصور ان کے ذہن میں رہنے لگا، پھر بدایوں سے آپ بغرض حصول تعلیم دہلی تشریف لائے اور صدر ولایت شمس الملک کے تلامذہ اور شاگردوں کے زمرہ میں داخل ہوکر مقامات حریری پڑھی، اسی طرح علم حدیث بھی آپ ہی سے حاصل کیا۔ (آپ چونکہ علم منطق میں بڑے ماہر تھے اس لیے) دوسرے طالب علم آپ کو نظام الدین منطقی کہا کرتے تھے، یہاں سے فراغت تعلیم کے بعد شیخ فریدالدین کے شوق ارادت میں آپ پاک پتن تشریف لے گئے اس وقت آپ کی عمر بیس سال کی تھی، پاک پتن پہنچ کر آپ نے شیخ فرید سے قرآن کریم کے چھ پارے تجوید کے ساتھ پڑھے، عوارف کے چھ باب کا درس لیا، تمہید ابوشکور سلمی اوربعض دیگر کتب بھی شیخ فریدالدین سے پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔
نظام الدین اولیاء فرمایا کرتے تھے کہ شیخ فرید الدین سے جب مجھے شرف پابوسی حاصل ہوا اس وقت اول ملاقات میں شیخ نے یہ شعر پڑھا تھا۔
اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردہ
ترجمہ: (تیری فرقت اور جدائی کی آگ نے کئی دلوں کو کباب کردیا اور تیرے شوق کی آگ نے کئی جانیں خراب کردیں) اس کے بعد میں نے چاہا کہ آپ کی خدمت میں حاضری کے شوق کو ظاہر کروں لیکن آپ کا خوف مجھ پر اس طرح غالب آیا کہ صرف اتنا ہی کہہ سکا کہ ملاقات کا شوق بے انتہا غالب تھا، پھر مجھ پر خوف کے آثار دیکھ کر فرمایا ہر نئے آنے والے کو دہشت ہوتی ہے، اسی دن میں نے آپ سے بیعت کی اور پھر پوچھا کہ اب کیا ارشاد ہے؟ کیا پڑھنے کا سلسلہ ختم کرکے اب ورد و ظائف میں مشغول ہوجاؤں؟ فرمایا: ہم کسی کو حصول تعلیم سے منع نہیں کرتے وہ بھی کرو اور یہ بھی کرو، پھر دیکھو کون غالب آتا ہے، نیز فقیرا ور درویش کے لیے کچھ علم بھی ضروری ہے، اس کے بعد شیخ نظام الدین اولیاء نعمت خلافت حاصل کرکے دہلی واپس آگئے، پیر و مرشد شیخ فریدالدین گنج شکر کے پاس آپ دہلی سے پاکپتن تمام عمر میں تین مرتبہ ہو گئے، شیخ فریدالدین کے انتقال کے وقت خواجہ نظام الدین اولیاء اتفاقاً اسی طرح موجود نہ تھے جس طرح کہ شیخ فریدالدین کے انتقال کے وقت خواجہ نظام الدین بختیار کاکی کے وصال کے وقت ان کے پاس موجود نہ تھے اور اسی طرح خواجہ قطب الدین اپنے شیخ حضرت معین الدین چشتی کے انتقال کے وقت ان کے پاس موجود نہ تھے اس واقعہ کے بعد باشارۂ غیبی خواجہ نظام الدین اولیاء دہلی چھوڑ کر اس کے قریب بستی غیاث میں قیام پذیر ہوگئے جہاں آپ کی خانقاہ بھی ہے۔
خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے بعمر 94 برس 18 ربیع الثانی بروز بدھ 725ھ کو آفتاب غروب ہونے سے قبل ہی علم و عرفان،رشد و ہدایت اور شریعت و طریقت کا یہ نیرِ تاباں اپنی جلوہ سامانی بکھیر کر دہلی میں غروب ہوگیا۔
حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی علیہ الرحمۃ
پیشوائے مشائخ کبار، مستغرق در بحر اسرار، سلطان الاصفیاء، چراغ شریعت وطریقت، شمع سلسلہ چشت اہل بہشت، صاحب مقاماتِ مسعود، حضرت خواجہ سید نصیر الدین چراغ محمود چشتی دہلوی علیہ الرحمہ کا شمار سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ، اور ہندوستان کے اکابر اولیاء میں ہوتا ہے۔ حضرت محبوب الہی علیہ الرحمہ کے بعد آپ ہی کانام نامی اسم گرامی آتا ہے کہ جنہوں نے سلسلہ عالیہ چشتیہ کے فروغ میں بڑا کردار ادا کیا۔ نوجوانی میں ہی ترک و تجرید کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے،محاسن اخلاق اور مجاہدہ نفس کی روشنیاں ظاہر ہونے لگیں،سن بلوغت کے بعد ایک نماز بھی جماعت کے بغیر ادا نہ کی اور ہمیشہ روزہ رکھتے تھے۔حضرت سید نصیر الدین چراغ دہلوی کاخاندانی تعلق حسنی ساداتِ کرام سے ہے۔آپ کے جد امجد خراسان سے لاہور تشریف لائے اور پھر لاہور سے ہجرت کرکے اودھ[پاک پتن شریف] مستقل سکونت اختیار کرلی۔آپ کی ذات مقدسہ بہت بلند، علم بے پایاں اور احوال پوشیدہ کے مالک تھے اور ابتدائے سلوک سےحضرت سلطان المشائخ کے بزرگ ترین خلیفہ ہیں اور آپ کے وصال کے بعد دہلی میں آپ سجادۂ خلافت پر متمکن ہوکر ایک جہان کے لیے منبع رشد و ہدایت بنے رہے۔ اور بے شمار بزرگوں کو آپ کے فیض صحبت سے مرتبہ تکمیل وارشاد حاصل ہوا۔ آپ صاحب حال ومقام راز دار سر بزرگ ہیں۔ آپ اپنے مرشد کے مکمل پیروکار تھے، فقر و فاقہ، صبر و ثبات ،رضا و تسلیم جیسے اوصاف کریمہ سے متصف تھے۔
لقب “چراغ دہلی کی وجہ بعض سیرت نگاروں نے یہ لکھی ہے کہ ایک دن چند درویش سیروسیاحت کرتے ہوئے حضرت سلطان المشائخ قدس سرہ کی خدمت میں پہنچے اور آپ کے گرد حلقہ بناکر بیٹھ گئے۔ اسی اثناء میں حضرت خواجہ نصیر الدین محمود تشریف لائے اور کھڑے ہوگئے۔ حضرت سلطان المشائخ نے فرمایا بیٹھ جاؤ! آپ نے عرض کیا کہ درویش بیٹھے ہوئے ہیں انکی طرف پشت ہوتی ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا چراغ کےلیے پشت اور منہ نہیں ہے۔ آپ حضرت محبوب الہی کا حکم مان کر بیٹھ گئے۔ اُسی دن سے آپ کے آگے اور پیچھے کی سمت برابر ہوگئی۔ یعنی سامنے اور پیچھے کی طرف یکساں دیکھ سکتے تھے اور اُسی روز سے آپ کا لقب چراغ دہلی ہوگیا۔ ایک اور کتاب میں اس لقب کی وجہ یہ درج کی گئی ہے کہ ایک رات حضرت سلطان المشائخ کے عرس کے موقع پر بادشاہ وقت نے حسد کی بنا پر بازار میں سارا تیل ضبط کرلیا اور حضرت شیخ نصیر الدین محمودنے تمام چراغوں کو پانی سے روشن فرمایا،صاحبو!پانی سے تو چراغ بجھ جاتے ہیں مگر نصیر الدین نے چراغوں میں پانی ڈال کر پوری دہلی کو منور کردیا ، اُسی روز سے آپ کا لقب چراغ دہلی ہوگیا۔
چراغ دہلوی کی ولادت باسعادت 673ھ مطابق 1274ء کو “فیض آباد” یوپی(ہند) میں ہوئی۔آپ کی عمر شریف نو سال کی تھی کہ والد گرامی کا انتقال ہوگیا ، آپ کی تعلیم وتربیت کی ساری ذمہ داری آپ کی والدہ محترمہ پر آگئی۔ آپ کی والدہ محترمہ سیدہ زمانہ اور عارفہ وقت تھیں، انہوں نے آپ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ علوم دینیہ مولانا عبد الكريم شيروانی سے حاصل کیے، ان کے وصال کے بعد مولانا سید افتخار الدین گیلانی سے تکمیل فرمائی۔ آپ علیہ الرحمہ تمام علوم ظاہرہ کے ماہر اکمل تھے۔
مرآة الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی قدس سرہ نے پچیس سال کی عمر میں مجاہدہ نفس شروع کیا اور ساری عمر سخت ریاضت و مجاہدہ میں گذاری، آپ سات سال تک ایک درویش کے ساتھ اس علاقے کے جنگلوں میں مجاہدہ کرتے رہے اور اکثر اوقات آپ سنبھالو اور کریل کے پتوں سے روزہ افطار فرماتے تھے۔ اکتالیس سال کی عمر میں اپ اودھ سے دہلی پہنچے اور حضرت سلطان المشائخ قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوکر شرف بیعت حاصل کیا۔ اور مدت دراز تک حضرت شیخ کی خدمت میں کمر بستہ رہے۔ حضرت شیخ نصیر الدین قدس سرہ اپنے شیخ کی محبت میں اس قدر بے اختیار تھے کہ اپنے ارادہ اور اختیار کو بالکل ترک کر کے حضرت شیخ کی ذات بابرکات کے سواہر مطلب و مقصد سے فارغ ہوگئے تھے۔
چنانچہ روایت ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت شیخ نصیر الدین کو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار قدس سرہ سے باریابی نصیب ہوئی یعنی ان کی روحانیت سے) تو فرمان ہوا کہ جو کچھ مانگتے ہو مانگو۔ آپ نے درخواست کی کہ ہمارا پیر قطب جہاں بن جائے۔ فرمان ہوا کہ تمہارے پیر کو ہم نے قطب جہان بنادیا اور یہ فرمان تین مرتبہ ہوا۔ حضرت محبوب الہی علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد ان کے صدقے ووسیلے سے مقام ولایت و قطبیت کے مقام رفیع پر آپ فائز ہوئے۔
تاریخ وصال آپ کا وصال 18 رمضان المبارک 757ھ مطابق 10/ ستمبر 1356ء بروز جمعۃ المبارک ہوا۔ آپ کامزار پرانوار دہلی میں مرجع خلائق ہے۔ جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا توآپ نے وصیت فرمائی کہ مجھے دفن کرتے وقت حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین محبوب الہی کا خرقہ میرے سینہ پر رکھ دینا اور میرے پیر و مرشد کا عصا میرے پہلو میں رکھنا۔ حضرت شیخ کی تسبیح میری انگشت شہادت پر ہونی چاہیے اور چوبیں نعلین بغل میں رکھی جائیں۔ آپ کے خدام نے اسی طرح کیا۔
حضرت خواجہ شیخ کمال الدین علامہ علیہ الرحمۃ
آپ حضرت خواجہ مخدوم نصیر الدین محمود چراغ دہلی کے خلیفہ اعظم اور رشتہ سے آپ کے بھانجے تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت امیر المومنین امام حسین علی المرتضی کرم اللہ وجہہ تک جاتا ہے ،آپ نھیال اور ددھیال دونوں جانب سے صحیح النسب تھے، حضرت شیخ محمد کی تالیف مجالس حسینیہ میں مذکورہ ہے کہ آپ ابتدا ًاودھ [پاک پتن]میں قیام پذیر تھے، لیکن حضرت مخدوم نصیر الدین محمود چراغ کی بیعت کے بعد آپ اور آپ کے تمام اہل و عیال دہلی منتقل ہو گئے اور دہلی کو ہی اپنا مسکن قرار بنالیا۔ آپ تمام علوم عقیلہ اور نقلیہ میں مہارت تامہ رکھتے تھے، چنانچہ مولانا تہاندی، مولانا عالم پاٹھی، مولانا عالم سنگریزہ ملتانی اور تاتار خان آپ کے شاگرد تھے۔ نیز سید جلال الدین بخاری کے پوتے حضرت مخدوم جہانیاں بھی آپ کے شاگرد تھے۔ انہوں نے خود جامع الکلم میں تحریر فرمایا ہے کہ انہوں نے ” مشارق الانوار” کی شرح شیخ کمال الدین علامہ سے پڑھی تھی۔
شجرة الانوار” میں مذکور ہے کہ آپ نے جوانی میں اس لگن سے علوم حاصل کئے کہ کوئی بھی علم کا شعبہ ایسا نہ تھا جس میں آپ نے دسترس حاصل نہ کی ہو۔ آپ کو علم تفسیر، حدیث اور فقہ میں کمال کا درجہ حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کے تمام علماء مفسرین و محدثین اور فقہا کے ہاں آپ علامہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ جہاں کہیں بھی کسی صاحب کمال درویش کا پتہ چلتا آپ تشریف لے جاتے اور جس شخص کے متعلق معلوم ہوتا کہ اسے علم سے لگاؤ ہے اس کی قدر کرتے آپ کا علوم ظاہریہ کی نسبت علوم باطنیہ کی طرف میلان زیادہ تھا۔ آپ کا قول ہے کہ اگر باطن نہ ہو تو ظاہر بے سود ہے اور اگر روح ہی نہ ہو تو وجود کی کوئی قدرو قیمت نہیں ۔آپ کو حضرت مخدوم نصیر الدین محمود چراغ کی خدمت میں بیٹھ کر جو لذت وسرور حاصل ہوتاوہ کسی اور کی مجلس میں حاصل نہ ہوتا اپنے متعلق فرمایا کرتے :
آب در کوزه دمن تشنه لبان گردیدم یار در خانه دمن گرد جہاں گردیدم
یعنی پانی برتن میں سامنے تھا لیکن میں تشنہ لب پھر تا رہا۔ میرا محبوب میرے گھر میں بیٹھا تھا اور میں اسے دنیا بھر میں تلاش کرتا پھرا۔
مجالس حسینیہ میں شیخ محمد صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت خواجہ کمال الدین علامہ کو شیخ نظام الدین اولیاء کی طرف سے بھی خلافت ملی تھی۔
شیخ نصیر الدین محمود حالانکہ آپ کے مرشد تھے پھر آپ کا بے حد ادب و احترام کرتے چنانچہ شیخ موصوف جب اُن کی دستار مبارک کو دیکھتے تو کھڑے ہو جاتے، سید محمد گیسو دراز نے اپنی تالیف میں آپ کے بے شمار مناقب لکھے ہیں۔ ایک جگہ لکھا ہے کہ شیخ الدین علامہ اپنے زمانہ کے مسلم الثبوت رہنما تھے اور سلطان فیروز شاہ و دیگر اراکین سلطنت کو آپ کے ساتھ بے پناہ عقیدت تھی۔ قاضی محمد عاقل صاحب جو حضرت قبلہ علامہ مہاروی کے خلیفہ اعظم تھے سے منقول ہے کہ حضرت مسعود حضرت شیخ شہاب الدین کے مرید تھے اور شیخ شہاب الدین حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الہی کے خلیفہ تھے، نیز انہوں نے حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی سے بھی فیض پایا ہے اور شیخ کمال الدین علامہ کے معتقدین میں سے بھی تھے۔ انہوں نے ایک دن جوتوں کا جوڑا خرید کر شیخ کمال الدین کو پیش کرنا چاہا۔ راستہ میں کسی نے پوچھا کہ کس کے جوتے اٹھائے جارہے ہو آپ نے جواب دیا کہ اللہ تعالی کے ۔ ان الفاظ پر علماء پر ہم ہو گئے اور ان کے قتل کا فتویٰ دے دیا۔ چنانچہ انہیں قلعہ فیروز کے نیچے ساحل دریائے جون پر لے جا کر شہید کر دیا گیا اور آپ کے اعضاء کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے دریا کے پانی میں پھینک دیا۔ اس طرح ان کا کوئی سراغ نہ رہا۔ مگر کچھ مدت کے بعد آپ کا مجسم وجود حضرت سلطان المشائخ کے حجرہ میں پایا گیا تو انہیں حضرت قطب الاقطاب کے مزار کے قریب ایک قبر میں دفن کیا گیا جب اس واقعہ کی خبر حضرت کمال الدین کوملی تو آپ نے قاضی سے پوچھا کہ تم نے کس جرم میں انہیں قتل کروایا؟ قاضی نے کہا کہ اس نے خداوند قدوس کے پاؤں ثابت کئے تھے ۔ شیخ کمال الدین نے فرمایا ایسی معمولی مشابہت موجب کفر نہیں ہوتی۔ اُس نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ خدا کے پاؤں کی جوتیاں ہیں۔ اس نے تو کہا تھا کہ یہ جوتیاں خدائے پاک کی ہیں ۔ گویا اس کی ملکیت ہیں تو جب وَ لِلَّهِ مَا فِی السَّمواتِ وَالْأَرْضِ“ کی آیت کے مطابق زمین و آسمان کی تمام اشیاء اللہ کی ملکیت میں ہیں تو اس نے اگر جوتیوں کی ملکیت کی نسبت اللہ کی طرف کردی تو کونسا جرم ہو گیا ؟ قاضی آپ کی اس دلیل سے لا جواب ہو گیا۔ آپ نے تین بار فرمایا کہ رُو سیاہ قاضی میرے سامنے سے دور ہو جاؤ۔“ قاضی اس وقت روسیاہ وتباہ حال ہو گیا۔
شیخ کمال الدین کا وصال ۲۷ ذی القعدہ ۷۵۷ھ میں ہوا اور آپ کا مزار حضرت چراغ دہلوی کی پائنتی کی جانب بنایا گیا ہے۔
حضرت خواجہ شیخ سراج الدین علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ سراج الحق حضرت خواجہ کمال الدین کے بڑے صاحبزادے اور جانشین تھے۔ آپ کو اللہ تعالی نے وافر علم عطا فرمایا تھا ،آپ کو ریاضتوں اور مجاہدوں کے ساتھ بھی خاص شغف تھا۔ آپ بالعموم خلوت میں رہتے اور اپنی کرامات کولوگوں پر ظاہر نہ ہونے دیتے۔ مجالس حسینیہ میں منقول ہے کہ جب شیخ کمال الدین حج سے واپس تشریف لائے تو شیخ نصیر الدین نے فرمایا کہ اگرتم چاہو تو تمہاری بے شمارنسل بڑھے وگر نہ تمہاری نسل یہیں ختم ہو جائے بہتر ہے کہ شادی کر لو آپ نے حضرت مرشد کے فرمان کے مطابق شادی کر لی۔ آپ کی اہلیہ کا رنگ سیاہ تھا اس لئے آپ کو اس سے رغبت پیدا نہ ہو سکی اور مسلسل چھ سال تک اپنی بیوی سے شکر رنجی رہی۔
جب اس صورت حال کا علم شیخ نصیر الدین محمود کو ہوا تو انہوں نے اپنے بھانجے زین الدین کو حکم دیا کہ ایک مکان آراستہ کرو ۔ چنانچہ زین الدین نے ایک مکان میں خوب آرائش کی شیخ نصیر الدین محمود نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد اس مکان میں تشریف لائے اور شیخ کمال الدین اور ان کی اہلیہ کو طلب فرمایا جب یہ دونوں حاضر خدمت ہوئے تو فرمایا کہ میں یہ مکان تمہیں ہبہ کرتا ہوں تم دونوں اس مکان میں رہائش اختیار کر لو۔ پھر فرمایا کہ لوگ عورت کے چہرے کے رنگ کو اہمیت دیتے ہیں مگر اس کے پیٹ کو نظر انداز کر دیا کرتے ہیں، تمہاری یہ بیوی اگر چہ سیاہ رنگ ہے لیکن تم دیکھو گے کہ اس کے بطن سے کئی ولی اللہ پیدا ہوں گے جو اپنے دور کے مایہ ناز عالم و فاضل ہوں گے۔ حضرت شیخ جمن فرماتے ہیں کہ اُن کے بطن سے تین صاحبزادے اور ایک صاحبزادی پیدا ہوئی ، بڑے بیٹے کا نام شیخ نظام الدین تھا۔ یہ بہت ذہین اور عقلمند تھے ۔ ایک دن کسی دانشور سے کسی موضوع پر بحث کی تو وہ آپ کی دانائی اور ذہانت سے حیران رہ گیا اور کہنے لگا برخوردار اتم جوان ہوتے دکھائی نہیں دیتے چنانچہ یہی ہوا اسی روز آپ کو شدید بخار نے آلیا اور آپ عنفوان شباب میں ہی راہی ملک عدم ہو گئے ۔
دوسرے بیٹے شیخ نصیر الدین تھے جو شیخ کمال الدین کی زندگی میں ہی باشعور ہوئے۔ اس بیٹے سے ایک لڑکا پیدا ہوا جن کا نام شیخ میراں تھا شیخ میراں سید محمد گیسودراز کے عقیدت مند تھے اور انہیں سے خلافت حاصل کی تھی۔ ان کا قیام شہر گلبرگہ میں رہا اور وہیں وفات پا کر حوض کنورہ کے بالائی جانب مدفون ہوئے۔تیسرے بیٹے شیخ سراج الدین تھے جن سے ایک دنیا نے فیض پایا شیخ موصوف بلند ترین مقام کے حامل تھے۔
آپ نے چالیس سال کی طویل زندگی حصول علم میں بسر کی، آپ کے اساتذہ گرامی میں مولا نا احمد تھانیسری ،مولا نا عالم الا بہ بھٹی اور مولا نا عالم سنگریزہ جیسے فاضل لوگوں کا نام آتا ہے۔ آپ نے قطب الاولیاء شیخ نصیر الدین سے بھی خرقہ خلافت حاصل کیا تھا۔ پھر چار سال بعد اپنے والد بزرگوار سے بھی انہیں خرقہ خلافت عطا ہوا ۔ آپ زہد و تقویٰ میں اپنی نظیر آپ تھے۔ کہتے ہیں کہ آپ جب دہلی میں قیام فرما تھے تو سلطان فیروز شاہ بہمنی نے بے حد التجا کی کہ آپ دکن میں تشریف لے آئے ۔ اس نے سات ہزار روپے بطور زادراہ بھی حضرت کی خدت میں ارسال کئے ۔ آپ نے وہ تمام رقم واپس کر دی اور فر مایا اللہ تعالی نے مجھے گجرات میں سب کچھ دے رکھا ہے ،ایک شخص نے عرض کی کہ حضرت یہ تو فتوح ہے اور فتوح کا رد کرنا منع ہے آپ نے فرمایا کہ اگر میں یہ لے کر سفر کروں گا تو میرا تمام سفر دنیاوی سفر بن جائے گا جو بزرگان دین کے نزدیک مذموم چیز ہے۔کہتے ہیں کہ جب شیخ نصیر الدین کا وصال ہو گیا تو حضرت مخدوم جہانیاں سید جلال الدین کے پوتے اوچ سے دہلی تشریف لائے اور علمائے دہلی کے ساتھ کئی مشکل مسائل پر بحث تمحیص کرتے رہے۔ انہی علماء میں شیخ سراج الدین بھی تھے۔ انہوں نے آپ سے بھی کئی وقیع مسائل پوچھے آپ نے بالکل درست اور صحیح جواب دیئے حضرت مخدوم نے آپ سے سترہ سوالوں کے بالکل صحیح جواب پائے تو آپ کی علمیت اور فضیلت کا اعتراف فرمایا۔ جب مباحثہ کی مجلس ختم ہوگئی تو حضرت مخدوم نے پوچھایہ شخص کون ہے؟ کہا گیا کہ یہ شیخ کمال الدین کے صاحبزادے شیخ سراج الدین ہیں۔ اس کے بعد شیخ معز اللہ آپ کے مکان پر پہنچے اور بڑے ادب و احترام سے عرض کی کہ حضرت! میں تو والد گرامی کا شاگرد ہوں مجھے آپ کے بارے میں علم نہیں تھا اس لئے اس مباحثہ میں مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوئی تو معافی کا طالب ہوں اس ناچیز کو حضرت شیخ نصیر الدین کے دست اقدس سے جو خلافت نامہ ملا تھا وہ بھی آپ کے والد بزرگوار کے قلم سے لکھا ہوا تھا۔
آپ کا وصال جمعرات کی رات کو بوقت عشاء بتاریخ اکیس جمادی الاول۸۱۷ ھ ہوا ۔ آپ کا مزار مبارک قلعہ نہر والا گجرات میں ہے جو پتن کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت خواجہ شیخ علم الدین علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ علم الدین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے والد گرامی خواجہ سراج الدین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے بعد مسند ارشاد پر جلوہ گر ہوئے، حضرت سید محمد گیسودراز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے بھی خلافت حاصل تھی، علوم و فنون سےآراستہ بزرگ تھے اور تمام متوسلین کو بھی اس کی نصیحت فرماتے تھے، روایت ہے کہ آپ بے علم اور ناخواندہ افراد کو علم طریقت سے آگاہ نہ فرماتے تھے، کیوں کہ آپ کا ارشاد تھا کہ ہمارے خاندان میں اگرچہ علم باطن کو فضیلت حاصل ہے لیکن اس کے لیے ظاہری علوم کا حصول لابدی ہے۔ علوم ظاہری سے دینی علوم مراد ہیں یہ علوم اس قدر تو ضرور آنے چاہئیں کہ قرآن پاک کی آیات اور احادیث پر عبور ہو۔
مجالس حسینیہ میں مذکور ہے کہ حضرت سراج الحق نے شیخ یحی بن شیخ لطیف الدین کی صاحبزادی صفیه بی بی سے نکاح کیا۔ اس خاتون کے بطن سے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ بڑے بیٹے شیخ معین الدین ،دوسرے شیخ علم الدین ، تیسرے شیخ محمد، چوتھے شیخ مجدالدین اور پانچویں شیخ سعد الدین تھے، آپ کی صاحبزادی کا نام مفخر النساء بی بی مریم تھا۔آپ کی تمام اولاد صاحب فضل و کمال تھی، مگر شیخ الاسلام شیخ سراج الدین کی رحلت کے بعد حضرت شیخ علم الدین، والد بزرگوار کے قائم مقام بنے۔ انہوں نے اپنے بزرگوں کے طریقوں اور روایات کو ہمیشہ زندہ رکھا۔
تحیتہ الحق میں مذکور ہے کہ جو شخص آپ کے حلقہ مریدین میں شامل ہوتا تو سب سے پہلے ابتدائی کورس کے طور پر آپ اس کو نوافل اشراق ، استعاذه ، استجاب، چاشت ، بعد نماز مغرب اوا بین چھ رکعت اور دورکعت نفل حفظ الایمان پڑھنے کی تاکید فرماتے۔ یہ تمام نوافل اس طرح ادا کرنے کا حکم دیتے جیسے کہ سلسلہ چشتیہ میں معمول چلا آرہا ہے نیز آپ انہیں سبعات عشرہ پڑھنے کی تلقین بھی فرماتے ۔
آپ نے ٢٦ صفر ۸۲۹ھ وصال فرمایا، اپنے والد کے قریب ہی پیران پٹن گجرات ، مدفون ہیں۔
حضرت خواجہ شیخ محمود راجن علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ محمود راجن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد گرامی خواجہ علم الدین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے بعد مسند نشین ہوئے، چشتیہ نسبت کے علاوہ شیخ خازن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے خرقۂ سہروردیہ بھی پایا تھا ،بلکہ سید محمد گیسودراز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، حضرت شیخ ابوالفتح رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اور حضرت شیخ عزیزاللہ (خلیفہ مجاز حضرت محبوب الہی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) سے بھی خلافت عطا ہوئی تھی۔
مجالس حسینیہ میں منقول ہے کہ شیخ جمال الدین المعروف شیخ جمن فرماتے ہیں کہ شیخ یحیی بن شیخ لطیف الدین کی بیٹی صفیہ بی بی زوجہ شیخ المشائخ سراج الدین بن شیخ کمال الدین علامہ،مفخر الناس، اور صاحب النفس ، خاتون تھیں، انہوں نے ایک دن حضرت علم الدین کو فرمایا بیٹا!؟ تمہارا چراغ فقط شیخ را جن ہی روشن کر سکتے ہیں۔ چنانچہ مشیت الہی اور اس خاتون پاک کے فرمان کے مطابق ایسا ہی ہوا کہ حق تعالی نے حضرت شیخ راجن کے نور معرفت سے ایک جہان کو منور اور روشن کیا۔
آپ نے سلسلہ سہروردیہ میں حضرت قادن الملت والدین سے بھی فیض حاصل کیا تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہمار پیروں میں یہ سہروردی نسبت بھی چلی آتی ہے، حضرت شیخ راجن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ۲۲ صفر ۹۰۰ھ کو انتقال فرمایا،مجالس حسینیہ میں ہے کہ حضرت را جن کا وصال احمدآباد میں ہوا اور وہیں مدفون ہوئے ،پانچ چھ ماہ کے بعدشیخ جمال الدین المعروف جمن تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ ہمارے مرشد شیخ را جن کا مزار کہاں ہے؟، شیخ حسن محمد نے جگہ بنائی ،شیخ جمن وہاں گئے۔ قبر کھود کر آپ کے جسم کو نکالا اور پتن نہر والا کے پاس لے جا کر دفن کیا۔ جو آج بھی زیارت گاہ عالم ہے۔
حضرت خواجہ شیخ جمال الدین جمن علیہ الرحمۃ
شیخ جمال الدين عرف شیخ جمن اپنے والد گرامی شیخ محمود راجن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے خلیفہ مجاز ہوئے، ان کی تربیت والد گرامی نے بہت توجہ سے فرمائی تھی کہ اس سلسلہ کی تمام ذمہ داری ان پر تھی، صاحب علم بزرگ تھے، علوم ظاہری اور علوم باطنی میں کمال حاصل تھا، ایک معرکہ میں کفار کے ہاتھوں شہید ہوئے، شاعر بھی تھے ایک دیوان یادگار چھوڑا ہے۔
آپ کی والدہ محترمہ شیخ عزیز اللہ بن شیخ یحیی بن شیخ لطیف الدین جیسے ولی اللہ کی صاحبزادی تھیں جن کا قیام احمد آباد میں تھا۔ یہ خاتون فضل و تقویٰ میں ایک ممتاز مقام رکھتی تھیں۔
شجرة الانوار میں ہے کہ حضرت شیخ محمود عرف شیخ را جن کے بے شمار خلفاء تھے، لیکن ان سب میں شیخ جمال الدین جمن کو ایک امتیازی حیثیت حاصل تھی، جب شیخ محمود کو اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوا کہ خواجگان چشت کی روحانی امانت شیخ جمن کے سپرد کر دو تو آپ نے انہیں اپنے پاس بلوایا، چند دن تک اپنے پاس رکھا۔ آپ کی نگاہ ہر وقت شیخ جمن پر رہتی۔ اس نگاہ کرم کا یہ نتیجہ نکلا کہ آپ کا باطن معرفت الہی کے نور سے مالا مال ہو گیا۔ پھر آپ نے انہیں خرقہ خلافت بھی عطا فرما دیا۔ آپ نے اپنے آپ کو ہمیشہ مستور الحال رکھا، لیکن پھر بھی خرق عادات ، واقعات اور کرامات کا اس طرح ظہور ہوا جو لوگوں سے پوشیدہ نہ رہا اور لوگوں کو آپ کی کرامات کا علم ہو گیا۔ جو شخص آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا وہ قلیل مدت میں معرفت کے اعلیٰ درجات تک جا پہنچتا ۔ آپ کے جو بھی مرید ہوئے وہ اپنے وقت کے شیخ قرار پائے ۔
آداب الطالبین میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ جمن بن حضرت شیخ را جن کا وصال۲۰ ذوالحجۃ ۹۲۰ھ میں وفات پائی اور احمد آباد گجرات میں مدفون ہوئے۔
حضرت خواجہ شیخ حسن محمد علیہ الرحمۃ
آپ کا نام نامی اسم گرامی اصل میں تو شیخ نصیر تھا لیکن حسن محمد کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ شیخ احمد المعروف علامہ کے صاحبزادے تھے ۔ آپ حضرت شیخ جمن کے خصوصی مرید و خلیفہ خاص تھے، وہ شیخ علم الدین کے اور وہ شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی قدس سرہم کے مرید تھے۔ نیز حضرت شیخ محمد غیاث نور بخش سے قادری سلسلہ کی نسبت بھی حاصل کی تھی۔ آپ علوم عقلیہ اور نقلیہ میں مہارت تامہ رکھتے تھے اور علم معرفت میں یگانہ روزگار تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت عطا فرمائی تھی کہ ایک نگاہ سے طالب کو مقصد مراد تک پہنچا دیتے جو بھی صاحب استعداد ہوتا اسے ایک ہی نظر میں جمالات الہیہ کا مشاہدہ کرا دیتے۔
شيخ حسن بن میاں جیون قدس سرہ ایک بڑے جلیل القدر اور اپنے زمانے کے مایہ ناز گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے گھر ہی سے حاصل کی مزید علوم کے حصول کے لئے کئی مقامات کا سفر کرکے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپ متبحر اور وسیع العلم علماء میں سے ہوگئے۔
حصول علم سے فراغت کے بعد آپ مخلوق کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کی ذہنی و اخلاقی تربیت شروع کی۔ آپ کے حلقۂ ارادت سے کافی لوگوں نے فائدہ حاصل کیا۔ آپ اپنے اوراد و وظائف کے پابند اور اپنے وقت کی بہت قدر کیا کرتے تھے۔ آپ کا وقت وعظ و نصیحت اور اشاعت علم میں گزرتا۔
حضرت شیخ محمد نے لکھا ہے کہ جب ہمارے شیخ حسن محمد کی رحلت کا وقت آیا تو آپ تکلیف کی شدت کی وجہ سے بار بار پہلو بدلتے تھے بخار، زیادہ تھا۔ بہت سے خدام موجود تھے ،اس حالت میں آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا۔ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ اَنتَ وَلِي فِى الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَّ الْحِقْنِي بِالصَّالِحين” (زمین و آسمان کے خالق ! دنیا اور آخرت میں میرا تو ہی والی ہے۔ مجھے اسلام کی حالت میں موت دینا اور مجھے نیک لوگوں کے سنگ ملا دینا ) اس کے بعد آپ نے پوچھا کیا ظہر کا وقت ہو گیا ؟ ہم نے عرض کیا نہیں قبلہ ! ابھی نہیں آپ بائیں کروٹ پر لیٹ گئے اور میری پشت پر ہاتھ رکھ کر مجھے اپنی گود میں لے لیا اور فرمایا۔ “اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ پھر آپ نے دائیں پہلو بدلا اور کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔آپ 28 ذو القعده 980 هـ / بمطابق 31 مارچ 1573 ء میں واصل کا بحق ہوئے،آپ کا مزار مبارک احمد آباد گجرات میں بنایا گیا۔ آپ کی کل عمر ۵۹ سال تھی۔
حضرت خواجہ شیخ محمد بن حسن محمد علیہ الرحمۃ
حضرت شمس الدین محمد احمد آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،آپ شیخ حسن محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے صاجزادے اور خلیفہ ہیں، آپ کو علوم دینیہ اور علوم باطنیہ میں پوری دسترس حاصل تھی، صاحب تصنیف و تالیف بزرگ تھے، تقریباً بیالس کتابیں تحریر فرمائیں، جو سب کی سب تصوف کے حوالے سے صوفیانہ افکار و نظریات کی ترجمان ہیں، ا ان میں آداب الطالبين، راحت المريدين، تحفۃ السلوک اور تفسیر حسینی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جب شیخ حسن محمد نے اپنے بزرگوں کی روایات کے پیش نظر آپ کو علم دینا چاہا تو اپنے آپ سے جدا کر کے ریاضتوں اور مجاہدوں میں لگا دیا۔ آپ نے تھوڑی مدت میں سخت ریاضتیں کیں۔ مگر کسی کو بھی ان کی ریاضت کا علم نہ ہو سکا۔ حضرت شیخ حسن محمد آپ کی ریاضتوں اور کرامتوں کو چھپانے کی بناء پر بہت پسند فرماتے ۔ “شجرة الانوار میں ہے کہ حضرت شیخ حسن محمد نے رحلت کے وقت وہ تمام تبرکات اور نعمتیں جو انہیں بزرگوں سے ورثہ میں ملی تھیں، آپ کے حوالہ کر دیں اور اپنا خلیفہ وقائم مقام نامزد فر ما دیا۔
آپ نے ” آداب الطالبین‘‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ جو شخص اپنے مرشد سے فیوض حاصل کرنا چاہتا ہو تو اسے چاہئے کہ ہر نماز سے فراغت کے بعد دس بار ’’یا شیخ فلاں‘‘، دس بار ’’یا مولا نا فلاں ‘‘، دس بار ’’یا حضرت فلاں‘‘ کہے تو اس عمل سے اُسے فیوض حاصل ہونے لگیں گے۔ نیز مراقبہ میں شیخ کا تصور بھی کرے اور حاضر وناظر بھی جانے۔ آپ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جب بھی کھانا شروع کر تو ہر لقمہ پر بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرحیم پڑھ لیا کرو۔ اس سے تمہارے باطن میں نورانیت پیدا ہوگی اور خواب غفلت میں مبتلا نہ رہو گے اور جب سونے لگو تو باوضو سویا کرو۔ اس سے تمام رات عبادت میں شمار ہوگی ۔ اگر وضو دشوار ہو تو تیمم کر لیا کرو کیونکہ یہ وضو کے قائم مقام ہے اور پوری رات کبھی جاگ کر نہ گزارو کیونکہ نیند میں بذات خود کئی فوائد ہیں۔
آپ کے ہاتھ پر کئی کرامتیں اور ناممکن واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ جو بہت مشہور ہیں ان کرامات سے ایک کرامت کا ذکر نواب غازی الدین نے اپنی کتاب مثنوی میں لکھا کہ ایک دفعہ آپ دہلی تشریف لے گئے ،ایک دن پورے صدق و خلوص کے ساتھ حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی کے مزار مبارک پر پہنچے، آپ کا دل شدت محبت سے پھٹا جارہا تھا کہ مشیت ایزدی سے شیخ موصوف کی قبر درمیان سے پھٹ گئی اور اللہ تعالیٰ کے حکم ورضا کے ساتھ آپ قبر کے اندر تشریف لے گئے آپ کے خدام اور درویش کافی دیر تک باہر انتظار کرتے رہے کافی وقت کے بعد آپ قبر سے باہر تشریف لائے اور دنیا کو اپنے جمال سے بہرہ ور فر مایا اس کے بعد قبر بدستو مل گئی ،لیکن جہاں سے پھٹی تھی اس کا نشان قبر کے درمیان اب تک موجود ہے جو ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔آپ کا وصال 29 ربیع الاول 1040ھ احمد آباد گجرات میں ہوااپنے والد گرامی شیخ حسن محمد کے ساتھ کے ساتھ مدفون ہیں، اور آپ کا مزار مبارک احمد آباد گجرات میں ہے۔
حضرت خواجہ شیخ یحی مدنی علیہ الرحمۃ
خواجہ ابو یوسف محی الدین یحییٰ مدنی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو خلافت اپنے دادا شیخ محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے ملی، مولوی محمد گہلوی نے’’ خیرالاذکار‘‘ میں لکھا ہے کہ میں نے حضرت قبلہ عالم حضرت خواجہ نورمحمد مہاری علیہ الرحمۃ کی زبان سے خود سنا تھا کہ چونکہ شیخ محمدکا کوئی بیٹا خلافت کا اہل ثابت نہ ہوا، اس لیے آپ نے خلافت اپنے پوتے حضرت یحیی مدنی علیہ الرحمۃ کے سپر دفرمائی۔
’’شجرة الانوار ‘‘میں لکھا ہے کہ آپ نے تحصیل علوم کے بعد مرشد کامل کی تلاش شروع کر دی، جو نہی آپ کا اعتقاد حضرت شیخ محمد پر راسخ ہو گیا تو اُن کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے۔ آپ کے مرشد نے ریاضتوں اور مجاہدوں کی تلقین کی تو آپ نے مسلسل روزے رکھنے شروع کر دئیے۔ آپ تمام رات نوافل میں گزارتے ، شام سے صبح تک خوف خداوندی میں رات بسر کرتے، مرشد نے انہیں خلافت کا اہل خیال فرمایا تو اپنا خلیفہ اعظم بنا کر جانشین نامزدفرمادیا۔ اور تمام لوگوں کو حکم دے دیا کہ اب جو شخص بیعت کا خواہشمند ہو وہ میری بجائے ان کی بیعت کرلیا کرے ،لیکن آپ کے مرشد جب زندہ رہے آپ نے از راہ ادب کسی شخص کو اپنا مرید نہیں بنایا۔ البتہ جب حضرت مرشد وصال فرما گئے تو پھر دعوت اور بیعت کے سلسلے کا آغاز کر دیا۔ اسی کتاب میں ہے کہ آپ کو رسول اکرم ﷺکی روح اقدس سے ایک خاص قسم کی مناسبت تھی چنانچہ اکثر راتوں میں بلکہ تمام راتوں میں آپ خواب میں حضور ﷺکی زیارت سے بہرہ ور ہوتے تھے ۔
شجرة الانوار اور غازی الدین کی مثنوی میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ پہلے احمد آباد میں قیام فرما تھے ،لیکن اپنے مرشد سے بیعت کرنے کے بعد آپ کے دل میں حج اور روضہ اطہر کی زیارت کا شوق پیدا ہوا ،چنانچہ حضرت مرشد کی رحلت کے بعد آپ سفر حج کے لیے مکہ مکرمہ گئے اور پھر وہاں سے مدینہ منورہ میں حضور ﷺکے روضہ اطہر پر حاضری دی۔ آپ کو اس جگہ سے اس قدر انس پیدا ہوا کہ و ہیں مدینہ منورہ میں ہی مستقل اقامت اختیار کر لی۔ مثنوی میں یہ واقعہ میں بھی درج ہے کہ ایک بار مدینہ منورہ میں بے پناہ سیلاب آگیا۔ سیلاب کا پانی مکانوں کی چھتوں سے بھی اوپر آگیا اور لوگ شہر چھوڑ کر صحرا میں درختوں پر پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ،آپ نے اس موقع پر اپنے مکان کے اردگرد ایک لکیر کھینچ دی لوگوں نے دیکھا کہ سیلاب کا پانی اس لکیر کو عبور نہ کر سکا اور دُور دُور ہی رہا ،لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ۔
بعض روایات میں آتاہے کہ شیخ حج و زیارت کے لیے گئے، تومدینہ منورہ یوں مقیم ہوئے کہ مستقل قیام کر لیا، تقریباً چودہ سال حاضر دربار رہے اور وہیں ۲۸ صفر ۱۱۰۱ھ کو وفات پائی۔ جنت البقیع میں حضرت عثمان رَضِيَ الله تَعَالٰی عَنْہ کے قریب دفن ہوئے، زہے قسمت۔
حضرت خواجہ شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی علیہ الرحمۃ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے مخلوق انسانی کو پیدا فرمانے کے بعد اس کی رہنمائی کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور سلسلۂ انبیا کی پروقار لڑی کے آخر میں محبوب کونین ﷺکو پرو کر سلسلہ نبوت کو مکمل فرمادیا۔ اب تا قیامت کسی نئے نبی یا رسول کی بعثت نا ممکن ہے ۔امت محمدیہ ﷺکوجہاں اللہ تعالیٰ نے یہ شرف بخشا کہ یہ آخری نبی خاتم النبیین ﷺکی آخری امت ہے، وہاں یہ فضلیت بھی عطا کی کہ یہ امت سابقہ تمام امتوں میں سے سب سے بہتر ہے اور اس بہترین امت ہونے کی وجہ امتیاز یہ ہے کہ اس امت کے ہر فرد کو یہ فریضہ سونپ دیا گیا کہ اب قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی رہنمائی اسی امت نے قرآن مجید فرقان حمید اور اسوۂ خاتم النبین ﷺکی روشنی میں خود کرنی ہے ۔ اس فریضہ کو نبھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ ﷺکی تاریخ میں ہمیشہ کچھ لوگوں کا بطور خاص انتخاب بھی فرمایا جنھوں نے انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کا مسافر بنادیا۔ ان منتخب افراد میں سے ایک نام حضرت شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔آپ کاشمارسلسلہ چشتیہ کے مشہور ومعروف اولیائے دہلی میں ہوتا ہے اور قرطاسِ تاریخ میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ برصغیر میں تبلیغ اسلام کے حوالے سے سلسلہ چشتیہ نے نمایاں خدمات سر انجام دیں، آپ کی شخصیت بھی اسی سلسلہ کی ایک مضبوط کڑی ہے ۔آپ کو شیخ المشائخ،عالم وعارف،محدثِ کامل اور مجدد ِ سلسلۂ چشتیہ نظامیہ جیسے القاب کے ساتھ یادکیاجاتاہے ۔آپ کے آباؤاجداد شاہجہانی دور میں ’خُجَند‘ ترکمانستان موجودہ ( تاجکستان) سے ہجرت کر کے دہلی آئے اوریہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ آپ کی ولادت باسعادت 1060ھ بمطابق 1650ء کو دہلی میں ہوئی۔آپ کے والدگرامی کانام حاجی نور اللہ صدیقی جب کہ داد اکانام ’شیخ احمد صدیقی‘(رحمۃ اللہ علیہما)تھا۔آپ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ اول سیدنا صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے ۔ آپ کاگھرانہ علمی و روحانی اعتبارسے اپناایک امتیازی تعارف رکھتاتھابالخصوص فنِ تعمیرمیں ایک الگ پہچان کاحامل گھرانہ تھا۔اس لئے آپ کی تعلیم وتربیت کا اہتمام بھی خاندانی روایت کے مطابق کیاگیا۔ان دنوں دہلی علوم وفنون کا مرکزتھا۔چنا نچہ آپ نے بھی دہلی کے جلیل القدر علما،صلحا اوراساتذہ سے ظاہری و باطنی علوم میں اکتساب ِفیض کیااور تمام علوم و فنون میں مہارت ِ تامہ حاصل کرکے دہلی کے متبحر علما میں شمارہونے لگے ۔آپ کے اساتذہ میں سید محمد غوث گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے شیخ برہان الدین المعروف شیخ بہلول رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے بھائی شیخ ابو الرضا الہندی رحمۃ اللہ علیہ کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔ حصولِ علم کے بعد اس دورکے جلیل القدراوراعلیٰ مقام ومرتبے کے روحانی بزرگ سیدحسن رسول نما رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت کے لئے عرض کیاتوانھوں نے فرمایاکہ تمہارا حصہ یہاں نہیں،تم حضرت شیخ یحییٰ مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں مدینہ منورہ حاضرہوکر اُس گلشنِ معرفت سے خوشہ چینی کرو۔ لہٰذاآپ نے مدینہ منورہ میں شیخ یحییٰ مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت کی،مجاہدات و سلوک کی منازل طے کیں اور سلسلہ چشتیہ میں خلافت حاصل کی۔آپ کی شخصیت علم و فضل اورروحانیت میں یگانہ روزگار تھی۔آپ نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے دہلی میں درس حدیث اور تصنیف کا سلسلہ شروع کیا۔آپ کے تذکروں میں آپ کی تیس کتابوں کے نام بھی ملتے ہیں جو آپ نے لکھیں۔آپ نے ایسے دور میں علم کی شمع روشن کی جب مسلمانان ہندعلمی ،روحانی،سیاسی اور معاشرتی اعتبار سے نہایت نازک دور سے گزر رہے تھے ۔اس دور میں آپ کی شخصیت علم و معرفت ،رموزو حکمت اور احسان و سلوک کا سر چشمہ تھی ۔آپ کے آباؤ اجداد کا پیشہ معماری تھا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو دلوں کی معماری کے لیے منتخب فرمایا۔ ہزاروں تشنگان معرفت اپنی پیاس بجھانے دہلی کے مشہور بازار ’خانم ‘ میں موجود آپ کے مدرسہ میں آتے اور شائقین علم و فضل آپ کے حلقہ درس میں شامل ہونا باعث فخر و مباہات تصور کرتے ۔آپ مہمان نواز، سخی، خوش اخلاق اور توکل علی اللہ کی عملی تصویر تھے ۔درس حدیث میں شامل ہونے والے لوگوں کے کھانے کا اہتمام خود فرماتے ، کسی کی طرف سے تکلیف پہنچتی تو کبھی ناراضگی کا اظہار نہ فرماتے اور اپنے مریدین کو بھی حکم فرماتے کہ لوگوں کی جفا کو برداشت کریں، شکایت کے لیے لب نہ ہلائیں۔ آپ اکثر فرمایا کرتے کہ ہمارا کام دلوں کو ایک جگہ جمع کرنا ہے ، اس میں جتنی بھی مشکلات آئیں ان کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے ۔آپ کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی کہ آپ کے تمام مریدین تبلیغ اسلام اور احیائے دین کے لیے کوشش کریں ۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب تک اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے کمر ہمت نہ باندھ لی جائے خلافت کا کوئی فائدہ نہیں،احیائے دین کی کوشش کرو یہی ہمارا مسلک ہے اور یہی ہمارے بزرگوں کا مسلک ہے ، اس میں کوتاہی اچھی نہیں۔آپ اپنے شاگردوں اور مریدین کو مختلف علاقوں میں تبلیغ دین کے لیے مامور فرماتے اور ان پر سخت نگرانی بھی رکھتے ۔آپ روحانی ترقی کے لیے اتباع شریعت کو نہایت ضروری قرار دیتے تھے ۔آپ کا عقیدہ تھا کہ جو شریعت کی راہ پر نہیں چلتا وہ گمراہ ہے اور شریعت کے بغیر طریقت و حقیقت کی منازل کبھی طے نہیں کی جا سکتیں۔
آپ کو مجدد سلسلہ عالیہ چشتیہ کہاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔کیونکہ جس وقت آپ دہلی میں مسند آرا ہوئے اس وقت سلسلہ عالیہ چشتیہ کا خانقاہی نظام زوال پذیر تھا۔خانقاہیں ویرانی کا منظر پیش کررہی تھیں۔آپ ہی کی ذاتِ مبارکہ ہے جن کی وجہ سے سلسلہ عالیہ کو پھر سےعروج نصیب ہوا۔دورِ انحطاط کو دورِ عروج میں بدلنے کا سہرا آپ کے سر ہے۔شیخ الاسلام حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی کےبعدایک خلا پیدا ہوگیا تھا۔اس خلا کو آپ نے ہی پر کیا۔حضرت شاہ کلیم اللہ نے خانقاہی نظام کی ایسی بنیاد رکھی جس نےبالخصوص اسلامیانِ ہند کوپھر سے ایمان وایقان کی قوت اور علم و حکمت اور معرفت کےخزینے عطاکیے۔وہ خانقاہیں پھر ایسی نہ رہیں جن میں صرف ہر وقت لنگر چلتا رہے،اور درویش صرف نعرے لگاتے رہیں۔ملت اسلامیہ اور تعلیم اسلام سے کوئی سروکار نہ ہو۔بلکہ حضرت شاہ کلیم اللہ نے ایسی خانقاہ کی بنیاد رکھی کہ جس میں ہر مرید وخلیفہ پر لازم تھا کہ وہ پہلے علومِ ظاہری میں مہارت ِ تامہ حاصل کرے،تاکہ دین ِ اسلام کے تمام شعبہ جات کی بنیادی معلومات حاصل ہوں،اور وسیع بنیادوں پر دین کی خدمت کرسکے۔پھر عوام میں جاہل صوفیاءنے جو غلط فہمی پھیلادی تھی کہ اصل صوفی وہ ہوتا ہے کہ جس کا علم و شریعت سے دور کاواسطہ بھی نہ ہو۔حضرت شاہ صاحب نے تمام علوم ِ نقلیہ و عقلیہ کا درس دےکر اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا۔
آپ کی ذات والاصفات سے سلسلہ عالیہ چشتیہ کو ایک اورمنہج ملا۔آپ کے خلیفہ حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی جید عالم دین کے ساتھ شیخِ طریقت بھی تھے۔اسی طرح ان کے صاحبزادے و جانشین حضرت فخرالدین فخرِ جہاں اپنے زمانے کےتمام علماء میں ممتاز مقام کے حامل تھے۔پھر ان کےخلیفہ حضرت قبلۂ عالم خواجہ نور محمدمہاروی،اور شاہ نیاز بریلوی وغیرہ رحمہم اللہ،اور پھرآپ کےخلفاء، حضرت خواجہ نور محمد نارو والا،حضرت قاضی عاقل محمد کوٹ مٹھن شریف،حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی،حضرت خواجہ حافظ محمد جمال اللہ ملتانی،پھر ان سے حضرت خواجہ خدابخش خیر پوری،حضرت خواجہ عبیداللہ ملتانی،مولانا عبدالعزیز پرہاروی ،حضرت خواجہ شمس العارفین،حضرت شیخ الاسلام پیر مہر علی شاہ،حضرت خواجہ فیض محمد شاہ جمالی یہ سب حضرات اور پھر ان کے خلفاء در خلفاء سب آفتابِ شریعت اور ماہتابِ طریقت تھے۔اپنے وقت میں یہ ہستیاں علم و معرفت میں اپنا ثانی نہ رکھتی تھیں۔اس نظام کی بنیاد رکھنے والے حضرت شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی ہیں۔
آپ کی خدمت میں مخلوقِ خدا جوق در جوق حاضر ہونے لگی۔حتیٰ کہ امراء و وزراء اور اورنگ زیب عالمگیر حاضر ہوئے،اور پھر باربار حاضر ہوتے رہے۔آپ سے فیض حاصل کرتے رہے۔اورنگ زیب عالمگیر کے بعد ان کے فرزندبھی عاجزانہ حاضر ہوتے رہے،اور محمد شاہ بادشاہ تک جتنے سلاطین بھی تختِ دہلی پر متمکن ہوئے سب ہی اس آستانہ کے غلام تھے۔
دہلی میں حضرت شاہ صاحب کی مالی حالت اچھی نہ تھی۔لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو توکل اور قناعت کی بے پناہ دولت دے رکھی تھی۔ کبھی کبھار تو فاقے بھی ہوجاتےتھے،لیکن اس مردِ قلندر نے کبھی کسی حاکم سے نذرانہ نہیں لیا۔۔ کئی مرتبہ شاہِ دہلی فخر سیر نے بڑی عاجزی سے اصرار کیا کہ حضرت اپنی ضروریات کےلئے سرکاری خازنے سےرقم لےلیاکریں۔لیکن آپ نے ہر بار پیشکش مسترد کردی اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اتنا دیا ہےکہ مجھے زیادہ کی حاجت ہی نہیں ہے‘‘۔اسی نے ایک بڑی حویلی دینے کی پیشکش کی،آپ نہ مانے۔اس نے حاضری کی اجازت چاہی مگر آپ نے ٹال دیا اور فرمایا: تمھارے آنے سے ہمارے معاملات متأثر ہوں گے۔لہذا بذاتِ خود آنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔بادشاہ نے اس کے بعد یہ وطیرہ اختیار کرلیاتھاکہ جمعۃ المبارک کےدن جامع مسجدمیں حضرت بھی تشریف لےجاتے تھے،اور بادشاہ بھی اسی مسجد میں جمعہ ادا کرتا تھا۔پھر بھی وہ اجازت لےبڑی عاجزی اور تعظیم سے آپ کی قدم بوسی کرلیتا تھا۔
آپ نے تقریباً 80سال کی عمر پائی اورآخری عمر میں ضعف کے بسبب اکثر بیمار رہنے لگے ۔ بالآخرآپ نے 24/ربیع الاول 1142ھ بمطابق 1729ء کو وصال فرمایااور اپنی مسکونہ حویلی جو قلعہ اور جامع مسجد کے درمیان واقع تھی ، میں مدفون ہوئے ۔آپ کامزارمبارک دہلی میں مرجع خلائق ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اولیائے کاملین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے فیوض و برکات سے بہرمند فرمائے ۔ آمین
حضرت خواجہ شیخ نظام الدین اورنگ آبادی علیہ الرحمۃ
حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی ،صدیقی خاندان کے چشم و چراغ اور چشتیہ کے اکابرین سےتھے۔انہیں ہی شاہ نظام الدین جہاں آبادی بھی کہا جاتا ہے۔آپ متاخرین مشائخ چشت میں بڑے صاحب کرامت بزرگ تھے۔ اور جنوبی ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کی اشاعت کے سلسلہ میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ کسی دوسرے چشتی بزرگ کے لیے اپنے بزرگان دین کی فتوحات و برکات کے دروازے اس طرح نہیں کھلے تھے،جس طرح حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی کے لیے کھلے ہیں ۔ آپ کے آبائے کرام سلسلہ سہروردیہ کے پیر و کار تھے، جن کی نسبت شيخ الشيوخ حضرت شہاب الدین سہروردی سے ملتی ہے، آپ حضرت شاہ کلیم اللہ جہان آبادی کے مرید خاص اور خلیفۂ اکمل تھے۔ آپ کے مریدوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھی، ان میں اکثر صاحب قال و حال تھے۔ ان میں ظاہری و باطنی حسن و جمال کی دولت تھی آپ کی کرامات اور خوارق کا ایک زمانہ معترف ہے ،کئی بار مردے سے زندہ کرنے کا واقعہ بھی آیا، آپ کا اصلی وطن مشرقی ہندوستان کے قصبہ قصبات پورہ ہے، آپ وہاں سے تحصیل علوم ظاہری کے لیے دہلی آئے ،لوگوں کی زبان سے شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف سنی تو آپ کے ہی درس میں داخلہ لے لیا۔
مناقب فخریہ کے مولّف لکھتے ہیں کہ پہلے دن شیخ اورنگ آبادی حضرت شاه کلیم اللہ کی خدمت میں حاضری کے لیے گئے ،تو مجلس سماع برپا تھی حضرت پر حالت وجد طاری تھی، اغیار کے لیے یہ دروازہ بند تھا، شیخ اورنگ آبادی بھی حضرت کے دروازے پر جاکر کھڑے ہوگئے، آپ نے دستک دی حضرت نے اندر کسی خادم کو حکم دیا دیکھو کون ہے؟ مرید نے سے دروازے سے دیکھ کر واپس آکر عرض کیا ،حضور !کوئی اجنبی آدمی ہے اپنا نام نظام الدین بتاتا ہے،فقیرانہ لباس ہے، عامیانہ چہرہ ہے،درویشانہ رعب ودبدبہ ہے، آپ نے فرمایا اسے اندر لے آؤ!حاضرین مجلس نے عرض کی حضور اس بیگانے شخص کے آنے سے مجلس سماع کا لطف جاتا رہے گا ،ایسے حالات میں جب صوفیاء ایک خاص مجلس میں محو وجد و رقص ہوں، بیگانے لوگوں کا آنا مجلس کو مکدر کر دیتا ہے،راز افشاں ہوجائیں گے ۔ آپ نے فرمایا! یارو! مجھے اس نام سے محبت ہے اور یہ شخص بیگانہ نہیں لگتا، اس سے اپنائیت کی خوشبو آرہی ہے ،اسے اندر لے آؤ،یہ اجنبی نہیں ہے ،یہ ہماری ہی روح کی آواز ہے۔ آپ کو اندر لایا گیا حضور نے اپنے پاس بٹھا کر احوال پوچھا تو اسی دن سے نظام الدین کو مجلس خاص کا جلیس اور سماع و وجد کا انیس بنالیا گیا، وہ صبح و شام آپ کی مجلس میں رہنے لگے کبھی کبھی کتابیں بھی پڑھ لیتے، مگر زیادہ تر سلوک چشتیہ کی منازل طے کرتے نظر آتے، حضرت شیخ نظام الدین ابتدائے کار میں حضرت حکیم اللہ کے مریدوں میں ذوق شوق آہ و زاری سکر و شورش وجد و بے قراری کی کیفیات دیکھتے تو بڑے حیران ہوتے اور دل میں کہتے کہ ان لوگوں کو کس چیز نے اس طرح بنا رکھا ہے کون سی چیز انہیں مدہوش و بے خود بنا دیتی ہے۔آپ حضرت شیخ کلیم اللہ شاہجہان آبادی کی خدمت میں رہ کر مستفید ہوتے رہے۔ اکثر آپ حضرت شیخ کے مریدوں کاذوق و شوق، شغف و سکرو شورش دیکھتے تو آپ کو بڑا تعجب ہوتا، ایک روزکاواقعہ ہے کہ حضرت شیخ یحییٰ مدنی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک مرید مدینہ منورہ سے آیا اور حضرت شیخ کلیم اللہ شاہجہاں آبادی کی خدمت میں جب حاضر ہواتو حضرت شیخ کودیکھتے ہی اس پر وجدانی کیفیت طاری ہوئی اوروہ بےہوش ہوگیا۔
آپ کواس کے اس حال سے حیرت ہوئی۔ آپ نے معلوم کیاکہ کیابات تھی کہ جو وہ شخص اس طرح مست و بے خود ہوا۔ جب آپ کواس کی تفصیل اور مضمرات سے آگاہ کیاگیاتوآپ کے دل میں بھی اس راستے پر چلنے کاشوق موجزن ہوا۔ آپ کے افکار و خیالات میں تبدیلی پیداہوئی، جس کا لازمی نتیجہ اعتقاد اطوار ارادت اور آئین خدمت گزاری تھا۔
آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت سید محمد بنده نوازگیسودرازکے خاندان سے تھیں۔ آپ کے ایک لڑکی اور پانچ لڑکے تھے۔ آپ کے صاحب زادوں کے نام حسب ذیل ہیں:محمد اسماعیل، غلام معین الدین ، غلام بہاؤالدین، غلام کلیم اللہ ، حضرت مولانافخرالدین فخرجہاں۔
آپ جامع علوم ظاہری وباطنی تھے۔ سنت رسول کے سخت پابند تھے۔ ریاضت ، مجاہدہ اور مراقبہ میں مشغول رہتے تھے۔ جب آپ استغراق میں ہوتےتھےتوکسی بھی بے شغل شخص کو چاہے وہ آپ کا مریدہی کیوں نہ ہو، نہیں پہچانتے تھے۔ ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ ہرآنے والے کی کھڑے ہو کر تعظیم کرتے تھے۔
آپ ۱۲ ذیقعده ۱۲۲۲ھ کو نماز عشاء کے بعد جوار رحمت میں داخل ہوئے،بوقت وفات آپ کی عمر بیاسی سال کی تھی۔ مزار اقدس اورنگ آباد میں زیارت گاہ خاص وعام ہے۔آپ کے ایک لاکھ سے زیادہ مرید تھے۔آپ کے صاحب زادے حضرت مولانافخرالدین فخرجہاں آپ کے سجادہ نشین ہیں۔
حضرت خواجہ مولانا فخر الدین فخر جہاں دہلوی علیہ الرحمۃ
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاک وہند کی تاریخ کے اصلی اسلامی ہیر وو ہ بزرگان دین ہیں، جنہوں نے اپنے علم وفضل، اخلاق و روحانیت کے فیض سے ظاہری سیاست سے کنارہ کش ہونے کے با وجود صحیح طور پر اس خطہ کے لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی اور ان کے فیضان نظر کا سکہ آج بھی رائج ہے۔ ہم جسے انتہائی سادگی سے تبلیغ واشاعت اسلام کہتے ہیں وہ ان نفوس قدسیہ کی ذات بابرکات کا کرشمہ علم و عمل ہے۔ اولیاء اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ انہوں نے علم حاصل کیا اور عام کیا ، علماء کو عمل کا جذبہ دیا،انہوں نے اپنے درس و تدریس، تحقیق و تصنیف کے ذریعے نہ صرف اسلام کو ہر دل عزیز کیا ، بلکہ مسلمانوں کے ایمان کو راسخ بھی کردیا ۔ ایک طرف ان کا علم و فضل حقیقت و صداقت کی گواہی دیتا رہا اور دوسری طرف ان کی باطنی اور روحانی طاقت اہل علم و بصیرت کی راہنمائی کرتی رہی۔
سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے ارشاد و تبلیغ کی مسند سنبھالی اور معاشرہ کی اصلاح و تربیت کی۔ اس سلسلہ میں جو اولیاء کرام نے خدمات انجام دیں ،وہ ہماری مذہبی ،تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کا روشن باب ہے ،یہ سعادت حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر، حضرت بہاء الدین ذکریا ملتانی ،حضرت خواجہ نظام الدین اولیااور دیگر لا تعداد صوفیائے کرام علیہم الرحمان کو بھی حاصل ہوئی ، جنہوں نے پاک وہند کے مختلف علاقوں میں قیام کیا، خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کیں ،اور علم دین کی بھر پور اشاعت کی اور اس بار گراں کو اپنے مضبوط کندھوں پر اٹھایا ۔ اس طرح یہ چراغ جلتا رہا اور کفر کے جہالت کدہ میں اسلام کا نور پھیلتا گیا۔
انہیں نفوس قدسیہ میں سے فخرِ جہاں ،حضرت شاہ فخر الدین دہلوی بھی ہیں ،آپ محمد شاہ بادشاہ اور ان کے جانشینوں کے عہد کی اہم شخصیت ہیں، آپ کامل واکمل صاحب ِتصرف اور زبر دست جذبہ کے مالک تھے۔ تمام عمر خدمت خلق اور تبلیغ اسلام میں گزاردی، اپنے علمی وروحانی فیوض و برکات سے ایک دنیا کو فیض یاب کیا ۔ آپ کا دور قتل وغارت گری کا دور تھا،مسلمانوں کا سیاسی اقتدار ختم ہو رہا تھا، ہر طرف زوال و انحطاط کے آثار نمایاں تھے، سیاسی بدامنی اور اخلاقی پستی کے زمانے میں اللہ کے کچھ نیک بندے رشد و ہدایت اور درس و تدریس کے کام میں مشغول ہوئے، اُن میں نمایا نام حضرت شاہ فخرالدین ،فخر جہاں دہلوی کاہے ،آپ ہی کے خلفاء نے مختلف مقامات پر اپنے پیرو مرشد کی ہدایت کے تحت چشتہ نظامیہ سلسلہ کی شاندار قانقاہیں قائم کیں اور رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کیا ۔
آپ کانام شاہ محمد فخرالدین،لقب محب النبی،برہان العارفین حضرت مولانا شاہ نظام الدین اورنگ آبادی چشتی نظامی علیہ الرحمہ کے فرزندِ ارجمند ہیں۔آپ کاسلسلہ ٔ نسب شیخ الشیوخ شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمہ کے واسطے سے حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔آپ کی والدہ محترمہ حضرت خواجہ سید محمد گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان سے تھیں۔
حضرت خواجہ فخر جہاں دہلوی کی ولادت 1126ھ بمطابق 1717ء کو اورنگ آباد میں ہوئی، حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آباد ی اپنے وقت کے بہت بڑے ولی تھے، لہذا والد نے آپ کی تعلیم کا انتظام بڑے اعلی پیمانے پر کیا، خود بھی بڑے ذی علم اور صاحب ولایت تھے، وقت کے مشہور قابل علماء سے آپ کی تعلیم کی تکمیل کروائی ،ظاہری علم کے ساتھ آپ کے باطن کی اصلاح پر بھی خصوصی توجہ دی بچپن میں ہی آپ کو اپنا مرید کر لیا تھا، جب والد کے وصال کا وقت قریب آیا تو اپنے بیٹے کو بلا بھیجا باپ نے بیٹے کو سینے سے چمٹالیا اور اپنی تمام باطنی نعمتیں بیٹے کے سینے میں منتقل کر کے سینے کو انوار و تجلیات کا مرکز بنادیا،اسی حالت میں باپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرکے عالم بالاکے سفر پر روانہ ہو گئی۔
آپ کے تمام خاندان میں مجذوبیت کا اثر کسی نہ کسی حد تک ہر زمانہ میں موجود رہا۔ یہ اسی جذب کی کیفیت کا اثر تھا کہ مولانا فخر الدین کے والد عرصہ دراز تک اپنے گھر تشریف نہ لائے۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت فخر الدین کا ظہور منظور ہوا تو آپ گھر تشریف لائے ۔ جب آپ کی ولادت کی خبر حضرت شیخ کلیم اللہ کو ملی تو آپ نے نومولود کا نام فخر الدین تجویز فرمایا اور بچہ کے لیے اپنا خاص لباس بھجوایا۔ حضرت کلیم اللہ نے آپ کے والد کو بشارت دی کہ یہ لڑ کا صاحب نسبت ہوگا اور جہان آباد میں آکر پوری دنیا کو اپنے فیض سے سیراب کرے گا۔
جب آپ کی عمر صرف سات سال تھی، آپ کے والد آرام فرما رہے تھے اور اپنے والد صاحب کے پاؤں دبا رہے تھے ۔ اچانک اسی دوران نیند آ گئی ، خواب میں کیا دیکھا : حضور اکرم ﷺ تشریف لائے ہیں اور اپنے دست اقدس سے پانچ عددبُن کے دانے عطا فرمائے،نیند سے بیدا ہوئے ،حقیقت میں آپ کے ہاتھ میں بُن کے دانے موجود تھے،اسی دوران آپ کے والد صاحب بھی جاگ اٹھے، انہیں نور معرفت سے مبارک خواب کی اطلاع ہو گئی تھی ۔ والد نے فرمایا کہ بیٹا یہ سب پھول خود نہ کھا لینا۔ آپ نے یہ دانے والد صاحب کی خدمت میں پیش کر دیے۔
اورنگ آباد اور جہاں آباد میں چند عرصہ قیام کے بعد ،جب آپ کا چرچہ دور دراز علاقوں میں ہونے لگا تو یہاں سے آپ نے دہلی کی طرف رخت سفر باندھ لیا،’’شجرۃ الانوار ‘‘میں مذکور ہے کہ جب آپ کے کمالات سے پردہ اُٹھ گیا اور آپ نے لوگوں کو اپنے نور فیض سے منور کرنا شروع کر دیا تو ،آپ کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اب کہیں اور چلے جائیں کہ یہاں شہرت مل گئی ہے جو سالک کے لئے مضر ہوتی ہے۔ اسی اثناء میں آپ ایک دن نماز ادا کر رہے تھے کہ آپ کے کانوں میں یہ آوازسنائی دی:بیٹا یہ بندھن تو ڑ کر آزادی اختیار کرو ۔
دہلی میں آنے کے بعد حضرت فخر جہاں سب سے پہلے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی ، حضرت مخدوم نصیر الدین چراغ دہلوی، حضرت سلطان المشائخ محبوب الہی نظام الدین اور حضرت فانی فی اللہ شیخ کلیم اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مزارات کی زیارت سے بہرہ ور ہوئے ۔ دہلی میں حضرت فخرجہاں صاحب نے ایک مدرسہ قائم کیا، اس مدرسہ میں بیٹھ کر حضرت فخرجہاں صاحب نے صرف درسی کتابیں پڑھانے پر اکتفانہ کیا، بلکہ حقائق و معارف کے وہ دریا بہائے کہ بقول مصنف مناقب فخریہ:
حضرت محبوب الہٰی رحمۃ اللہ علیہ کے دور کی طرح عرفان کاچراغ پھر روشن کردیا۔ سینے حقائق کے خزانوں سے معمور ہوگئے۔ جو سو رہے تھے جاگ اٹھے۔ جو بے ہوش تھے ہوش میں آگئے۔ جو بے خبر تھے باخبر ہوگئے۔ مردہ دل زندہ ہوگئے۔ زندہ دل بسمل بن گئے۔ عشق و محبت الہٰی کا بازار گرم ہوگیا۔ ذوق وشوق کا دریا موجیں مارنے لگا۔ دل کے میخانے اور آنکھوں سے ساغر آنسوؤں کی شراب سے مزین ہوگئے۔ فخرجہاں کی خانقاہ میں جو آتا، وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ جرائم پیشہ لوگ خانقاہ میں آتے اور ولی کامل بن کر نکلتے ۔شاہ صاحب خود سنت نبویﷺ کا کامل نمونہ تھے۔سنت نبویﷺ پر بڑا زور دیتے تھے۔ مریدوں کو ہدایت فرماتے کہ مذہبِ حنفی پر مضبوطی سے قائم رہیں اور قرآن و حدیث کی طرف کثرت سے رجوع کریں۔ شاہ صاحب ہر چھوٹے بڑے سے محبت سے پیش آتے۔شاہ صاحب کی طبیعت میں انکسار بہت تھا۔جب کوئی ان کی تعظیم کے لیے کھڑا ہوتا تو اسے روکتے تھے، خود ہر چھوٹے بڑے کی تعظیم کےلیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ لوگوں کی خوشی اور غمی میں ضرور شرکت فرماتے۔شاہ صاحب نماز ہمیشہ جماعت کے ساتھ ادا کرتے تھے اور مریدوں کو بھی نہایت سختی سے اس کی تلقین کرتے ۔
حضرت خواجہ حسن بصری کی ملاقات و بیعت حضرت مولاعلی رضی اللہ عنہ سے ایک معرکۃ الآراء مسئلہ بنی ہوئی تھی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اس کی نفی میں ایک رسالہ’’ الانتباہ فی سلاسل اولیاء‘‘ لکھا، جس کے جواب اور ملاقات کے اثبات میں ضروری تھا کہ حضرت فخرالدین قلم اٹھائیں اور مسلمہ مسئلہ کو ثابت کر کے حق کو ظاہر فرمائیں ، چنانچہ آپ نے تمام دلائل کی تردید میں ایک کتاب’’ رسالہ فخرالحسن‘‘ تصنیف فرمائی، جس کی افضل العلماء حضرت مولانا احسن الزماں حیدرآبادی نے شرح فرمائی ۔
73 سال کی عمر میں 27 جمادی الثانی 1199ھ مطابق1784ء کو وصال فرمایا۔ آپ کا مزار شریف دہلی قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ رحمۃ کے مزار اقدس کے عقب میں مرجع خاص وعام ہے۔
قبلہ عالم حضرت خواجہ نور محمد مہاروی علیہ الرحمۃ
حضرت شاہ کلیم اللہ دہلوی ،متحدہ ہندستان کے ایسے بزرگ ہیں جنہوں نے سلسلہ چشتیہ کااحیاءکیا، اور حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی(مرید نظام الدین اولیاء، مرید بابا فرید الدین گنج شکر، مرید بختیار کاکی ،مرید خواجہ اجمیری علیہ الرحمہ) کے بعد سلسلہ چشتیہ کو مربوط کیا جو کہ حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی علیہ الرحمہ کے بعد حضرت گیسو دراز کے دور میں بھکرنے لگا تھا،ان کے مرید و خلیفہ یعنی شاہ کلیم اللہ کے مرید و خلیفہ شاہ نظام الدین اورنگ آبادی علیہ الرحمہ نے اس سلسلہ کو آگے بڑھایا،نظام الدین صاحب کے بعد مولانا فخر جہاں نے احیاء دین کا کام کیا.مولانا فخر جہاں دہلوی علیہ الرحمہ وہ بزرگ ہستی ہیں جن کا مناظرہ شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمہ سے امام حسن بصری اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سماع پر ہوا تھا، مناظرہ تین روز جاری رہا جس کے بعد شاہ ولی اللہ نے شاہ فخر کی رائے کو تسلیم کر لیا تھا.یہ وہ دور تھا کہ مولانا ایک بہت ہی بڑا سٹیٹس ہوا کرتا تھا اور یہ مقام خال خال کسی کو حاصل ہوتا تھا.دہلی شہر میں صرف مولانا فخر جہاں ہی کو مولانا کہا جاتا تھا، یہی سے ان کے علمی مقام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،ان ہی کے مرید و خلیفہ تھے حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ۔
قدوۃ السالکین زبدۃ العارفین عمدۃ الواصلین،امیر السالکین،سندالواصلین ،فخر العارفین، فخر اولیاء، شیخ الاتقیاء، امام الاصفیاء ، آفتاب ملک ولایت، خورشید برج ہدایت ،وارث ملک نبوت، شہنشاہ اقلیم غوثیت، قطب مدار عالم ،منبع انوار الحمد محمد، مظہر اسرار احمد، حضور قبلہ عالم خواجہ نور محمد مہاروی، حضرت شاہ فخر کے محبوب ترین خلفاء میں سے تھے ،پروفیسر خلیق احمد نظامی صاحب لکھتے ہیں حضرت خواجہ فخر الدین دہلوی رحمہ اللہ کی جو عنایت بے غایت اور الطاف بےقیاس ان پر تھا اپنے خلفاء میں سے کسی پر نہ تھا پنجاب میں سلسلہ چشتیہ نظامیہ کی تبلیغ و ترویج حضور قبلہ عالم ہی کی پرخلوص کوششوں کا نتیجہ ہے حضرت شیخ الاسلام بابا فرید الدین گنج شکر رحمہ اللہ کے بعد پنجاب میں چشتیہ سلسلہ کے کسی بزرگ نے اس سلسلہ میں اس قدر کوشش نہیں کی ،جتنی اٹھارہویں صدی میں خواجہ نور محمد مہاروی نے کی ہیں تو نسہ شریف، سیال شریف ،احمد پور شریف، چاچڑاں شریف ،گولڑہ شریف جلال پور شریف وغیرہ مقامات میں خانقاہوں کے چراغ انہی کے ذریعے روشن ہوئے ہیں ۔
حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمہ اللہ کا شمار اوچ شریف کے نامور مشائخ میں ہوتا ہے ان کے خلفاء میں سے ایک معروف خلیفہ حضرت شیخ عبداللہ جہانیاں رحمہ اللہ تھے شیخ عبداللہ رحمہ اللہ کی اولاد میں حضرت شیخ محمد نیکوکارہ صاحب صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے حضور قبلہ عالم خواجہ نور محمد مہاروی کی والدہ ماجدہ عاقل بی بی ابھی اوائل عمر میں تھی کہ حضرت شیخ محمد نیکوکارہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا اللہ رب العزت عزوجل نے مجھے بتایا ہے کہ کہ عاقل بی بی رحمتہ اللہ علیہا کے شکم مبارک سے غوث زمانہ پیدا ہوگا جس کے فیض سے سارا جہاں سے روشن ہوگا حضرت شیخ دودی والا رحمہ اللہ سلسلہ قادریہ کے ایک عظیم بزرگ گزرے ہیں حضور قبلہ عالم رحمہ اللہ کی والدہ محترمہ ان کی زیارت کے لیے جاتیں تو وہ فوراً کھڑے ہو جاتے ایک دن آپ کی والدہ صاحبہ نے پوچھا یا حضرت آپ مجھے دیکھ کر کھڑے کیوں ہو جاتے ہیں اور میری اتنی تعظیم کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا میں تمہاری تعظیم نہیں کرتا اصل بات یہ ہے کہ تمہاری پیشانی میں غوث زما نہ کا نور خورشید کی طرح چمکتا ہے میں اس کی تعظیم کے لیے کھڑا ہو جایا کرتا ہوں ۔
حضرت خواجہ نورمحمدچشتی نظامی مہاروی کی ولادت ۱۴ رمضانُ المبارک۱۱۴۲ھ مطابق 2اپریل1730ء کوہوئی، آپ مادر زاد ولی تھے، اسی لیے شیرخوارگی کےباوجود رمضانُ المبارک میں دن کے وقت دودھ نوش نہیں فرمایا۔
چنانچہ 1125 ہجری میں حضور قبلہ عالم علیہ رحمہ حضرت شاہ فخر الدین دہلوی کے دست حق پرست پر سلسلہ چشتیہ یہ نظامیہ میں بیعت کی اور نعمت وقت جو سینہ بہ سینہ حضرت مولائے کائنات کرم اللہ وجہہ الکریم سے لے کر ایک دوسرے حضرات چشت میں پہنچتی رہی تھی آپ کو بھی حاصل ہوئی بیعت ہونے کے کچھ عرصہ بعد حضرت خواجہ فخر رحمہ اللہ نے پاکپتن شریف میں حاضر ی دینے کا ارادہ کیا اور اس سفر میں حضور قبلہ عالم آپ کے ہمراہ تھے پاک پتن شریف حاضری کے بعد حضرت شاہ فخر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نور محمد مہارشریف جاکر اپنی والدہ کی قدم بوسی کرو اپنے شیخ کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے وطن پہنچے تو پہلے ہی آپ کی آمد کا شہرہ ہو چکا تھا کہ ایک مرد قلندر آرہا ہے آپ کی والدہ کو بھی اطلاع دی گئی سعادت مند بیٹےنے دوڑ کر ماں کے قدم چوم لیے آٹھ دن اپنے وطن میں قیام کرنے کے بعد پاکپتن شریف اپنے شیخ کامل کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت بابا گنج شکر رحمہ اللہ کا عرس ختم ہونے کے بعد شاہ فخر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں ابھی یہاں دو مہینے اور رہوں گا تم پھر اپنی والدہ سے مل آؤ پھر آپ حسب حکم مہار سدا بہار آ گئے،دو ماہ بعد آپ پھر مہارشریف سے پاکپتن شریف واپس ہوئے،اور اپنے شیخ کے ساتھ دہلی تشریف لے گئے ،سفر سے واپسی کے بعد ایک دن حضرت فخر المشائخ خواجہ فخر الدین دہلوی نے فرمایا نور محمد آپ کے کندھوں پر مخلوق خدا کا بوجھ پڑنے والا ہے، یہ سن کر قبلہ حضور عالم نے بڑی عاجزی اور انکساری سے عرض کی حضور میں ایک پنجابی کسی کے کیا کام آؤں گا ؟فخر الاولیاء خاموش رہےاور کچھ دنوں بعد خواجہ نور محمد مہاروی کو خرقہ خلافت عطا فرما کر حکم دیا کہ اپنے وطن مہار سدا بہار میں رہ کر ہدایت کا چراغ روشن کریں ،آپ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے روانہ ہوئے ،مہارشریف میں تشریف لانے کے بعد حضور قبلہ عالم نے ارشاد وہدایت کی وہ شمع روشن کی کہ تمام خطہ ہند اس کی روشنی سے جگمگا اٹھا اور دور دور سے طالبان حق آپ کے گرد جمع ہونے لگے۔
حضرت قبلۂ عالم خواجہ نورمحمد مہاروی نواب غازی الدّین خان کےیہاں قیام فرما تھے،نواب صاحب حضرت قبلہ عالم کے پیر بھائی اوررازدارتھے،ایک روزآپ نےفرمایا:’’نواب صاحب! نبی کریم نےمعرفت سے بھری ہوئی ایک دیگ حضرت علی المرتضی کوعطا فرمائی تھی پھرآپ نے وہ دیگ حضرت خواجہ حسن بصری کو عطا فرمائی یوں آگے سلسلہ بہ سلسلہ چلتی ہوئی حضرت مولانا خواجہ فخرُالدّین شاہجہاں آبادی چشتی نظامی تک پہنچی تھی،آپ نےاس فقیر کو عنایت فرمائی۔ میں نے اس دیگ کو بہت خرچ کیا، اور تمام جہان والوں کو عطا کیا مگر اس دیگ میں کوئی کمی نہ ہوئی اسی طرح بھری ہوئی ہے۔‘‘نواب صاحب نے عرض کیا:آپ کے بعد اس دیگ کا مالک آپ کے مریدوںمیں سے کون ہوگا؟ارشادفرمایا:’’اللہ عَزَّ وَجَلّ کا حکم ہے کہ یہ دیگ محمد سلیمان روہیلہ کو دی جائے، میں اس حکم میں مجبور ہوں، اب یہ دیگ ان کی قسمت میں ہے۔ ‘‘نواب صاحب نے عرض کیا:وہ روہیلہ مجھے بھی دکھائے۔چنانچہ آپ نےحضرت خواجہ سلیمان تونسویکو بلوالیا ۔جب آپ حاضر ہوئے تو انہیں مخاطب فرماکر ارشاد فرمایا:میاں صاحب !وہ کتاب فقرات جو آپ کو مطالعہ کے لیے دی تھی حفاظت سے رکھئے گا، ایسا نہ ہو کہ گم ہوجائے ،و ہ کتاب پیرومرشدحضرت مولانا خواجہ فخرُالدّین شاہجہاں آبادی چشتی نظامی کا تبّرک ہےانھوں نے مجھے عطا کی تھی۔حضرت خواجہ سلیمان تونسوی نے عرض کی:میں اس کتاب کو حفاظت سے رکھوں گا۔آپ نے فرمایا :بس یہ بات کہنے کے لیے آپ کو بلایا تھا۔ جب آپ واپس چلے گئے تو حضرت قبلۂ عالم نےارشاد فرمایا: نواب صاحب !میری اس دیگ کا مالک یہی روہیلہ ہے۔۳ذوالحجۃ۱۲۰۵ھ کو آپ کا وصال ہوا۔آ پ کا مزار مبارک مہارشریف میں انوار وتجلیات کی بارش برسا رہا ہے۔
